22 دسمبر ، 2022
چند دن قبل امریکی اسٹریمنگ سائٹ نیٹ فلکس پر 2021 میں ریلیز ہونے والی فلم فرحہ ریلیز کی گئی اور اس کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی۔
اسرائیلی شہر جافا کے ایک تھیٹر میں جہاں یہ فلم نمائش کے لیے پیش کی جانی تھی ریاست نے اس تھیٹر کی فنڈنگ روکنے کا بھی ارادہ کرلیا،فلم فرحہ کو اسرائیل نے اپنے خلاف پروپگینڈا قرار دیا ۔
لیکن اس فلم میں ایسا کیا دکھایا گیا اس پر ایک طرف سوشل میڈیا پر جہاں بحث کی جارہی ہے وہیں اسرائیل آفیشلز کی جانب سے بھی شدید رد عمل سامنے آیا ہے ۔
فلم کی کہانی ایک فلسطینی لڑکی فرحہ کی ہے جس کا گاؤں 1948 میں ہونے والے اسرائیل فلسطین تنازعے کے باعث اسرائیلی فورسز کے نشانے پر ہے، حالات بگڑنے پر اپنے ہی گھر کے ایک حصے میں چھپنے والی یہ لڑکی اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ایک فلسطینی فیملی کا قتل ہوتے ہوئے دیکھ لیتی ہے ۔
یہ کردار ایک ایسی 14 سالہ لڑکی کا ہے جو گاؤں کی روایات کو پس پشت ڈال کر اپنا خواب پورا کرنے کی ٹھان لیتی ہے لیکن اس کے گاؤں پر اسرائیلی فوج کا حملہ سارے خواب چکنا چور کردیتا ہے ۔
اس فلم کے ایک سین میں حملے کے آثار دیکھتے ہوئے انتظامیہ کو عرب فوسز کی مدد کا انتظار کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے جو اگر بروقت پہنچ جاتی تو شاید کہانی مختلف ہوتی۔
اردن فلمساز دارین سلام کی یہ پہلی فلم ہے جو 2021 میں ریلیز ہونے کے بعد کئی فلم فیسٹیولز میں دکھائی جاچکی ہے اور2023 کے آسکرز کیلئے اردن کی طرف سے نامزد بھی کی گئی ہے ۔
2021 میں فرحہ کے ریلیز ہونے پر اسرائیل اور حمایتی گروپس نے کافی شور مچایا، احتجاج کا اعلان ہوا لیکن سب بے سود ثابت ہوا اور فلم پر پابندی نہ لگائی جاسکی ۔۔
ااب یہ کہانی، اسرائیل فلسطین تنازعے کے حقیقی واقعات پرمبنی ہونے کی وجہ سے دیکھنے والوں کو فلسطین میں گزرنے والی زندگی کی جھلک دکھا رہی ہے جس سے لوگ متاثر ہوکر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں ۔
فلم میں ڈائریکٹر دارین سلام نے اسرائیل کے حملے سے پہلے جو فلسطین دکھایا ہے وہ دیکھنے والوں کو اس سرزمین کی خوبصورتی کی تعریف کرنے پر مجبور کردیتا ہے ، اس میں کمال بات یہ ہے کہ یہ کہانی آپ کو اس دنیا میں لے جائے گی جہاں آپ ہر کردار کو قریب محسوس کر سکیں گے ۔
فلم میں فرحہ کا مرکزی کردار نبھانے والی اداکارہ کرم طاہر اوپننگ شارٹ سے کلائمیکس تک اسکرین پر دکھائی دی ہیں اور بعض سیکوئنس میں بنا ڈائلاگز کے بھی انہوں نے کہانی کہہ ڈالی ہے ، ان کی پرفارمنس پر جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔
ایکسٹراز میں نظر آنے والے بچے حقیقت میں فلسطینی مہاجرین ہیں ، جن کے متعلق ایک انٹرویو میں ڈائریکٹر نے بتایا کہ فلم میں ایک سین گھرانوں کے بچھڑنے کا ہے جب یہ سین کٹ ہوا تو سارے بچے اپنے آنسوں صاف کر رہے تھے، یہ کہانی ان سے اتنی قریب ہے کہ ایک سین نے انہیں اپنے اوپر گزرنے والے واقعات کی یاد دلادی تھی۔
ٹوئٹر پر کچھ دن قبل اس فلم کے بارے میں ٹرینڈ چلا جہاں لوگ مختلف خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نظر آئے ۔
کچھ نے فلم پر آنے والے اسرائیلی آفیشلز کے رد عمل کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے سوال بھی اٹھایا کہ اگر یہ یک طرفہ کہانی ہے تو نیٹ فلکس پر لاتعداد پرو اسرائیل کانٹینٹ بھی دکھایا گیا ہے، ایک فلسطینی کہانی دکھانے پر اسرائیل اتنا شور کیوں مچا رہا ہے ؟
بعض نے نیٹ فلکس پر تنقید کی کہ وہ فکشن کے ذریعے یک طرفہ کہانی کیسے دکھا سکتے ہیں خاص طور پر فلم کا وہ حصہ جس میں ایک فلسطینی گھرانے کو اسرائیلی فوجی کے ہاتھوں قتل ہوتا دکھایا گیا ہے ۔
یہ فلم 1948 کے ان واقعات پر مبنی ہے جو ایک 14 سالہ نوجوان لڑکی نے فلسطین کی سرزمین پر خود دیکھے ہیں، ڈائریکٹر دارین سلام نے فلم سے متعلق ایک انٹرویو میں بتایا کہ:’یہ کہانی 1948 میں فلسطین کی رہنے والی رضیہ نامی خاتون نے شام پہنچنے پر ایک نوجوان لڑکی کو سنائی تھی اس لڑکی نے ایک بیٹی کو جنم دیا اور وہ بیٹی میں ہوں‘، انہوں نے کہا کہ یہ کہانی میری والدہ نے مجھے سنائی تھی اور تب سے میں نے اس لڑکی کے بارے میں سوچنا شروع کیا ۔