10 دسمبر ، 2012
کراچی…اختر علی اختر…پروفیسر ڈاکٹرشمیم حنفی نے ناصرہ زبیری کی شاعری کے بارے میں کہا کہ وہ ایک فرد کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک اکائی کی صورت میں سامنے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے تیزی سے شاعری کی کتاب پڑھی نہیں جاتی، میں نے زیادہ اس کتاب کو نہیں پڑھا جو کچھ پڑھا اس سے مجھے نسوانیت کی نہیں بلکہ ایک ایسے فرد کی آواز ہے جو اپنے معاشرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اس کتاب میں غزل کے روایتی اوصاف ملتے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پانچویں عالمی اردو کانفرنس کے آخری روز کے تیسرے سیشن بعنوان ”کانچ کا چراغ“ سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ناصرہ زبیری نے خوبصورت انداز سے اپنے کلام میں معاشرے کے دکھ سکھ بیان کئے۔ اس میں بلا غت تھی، فکر کی زبان بھی تھی، یہ نیم کلاسیکل شکل میں اچھا نمونہ ہیں، مجھے ناصرہ زبیری کی نظموں کا انتظار رہے گا، کراچی میں یہ آخری شام ہے، کل میں دلی میں ہوں گا، تب وہاں جا کر پورے ہفتے کی صورتحال پر غور کروں گا کہ کیا کھویا کیا پایا،یہاں کراچی میں پورا ہفتہ بے حد مصروف گزرا سوچنے سمجھنے کا موقع نہیں ملا۔ اصغر ندیم سید نے کہا کہ ناصرہ تہذیبی شعور کی حامل شاعرہ ہیں اوراس کتاب کے مطالعے سے بہت ساری چیزیں آشکار ہوئیں، ان کی شاعری بظاہر آسان اسلوب لگتی ہے، لاہور، کراچی کی ادبی فضا اور اسلام آباد کی ادبی محفل کا ان کی شخصیت پر گہرا اثر نظر آتا ہے، آج غزل لکھنا ایک بہت بڑی آزمائش بن چکا ہے لیکن ان کا لہجہ اور اسلوب الگ ہے، ان کے ہاں شاعری اکائی میں ڈھل کر ظہور ہوتی ہے، ناصرہ زبیری نے مختلف کیفیات کو علامتوں اور اشعاروں میں پیش کیا ہے، ان کی شاعری کو سند کی ضرورت نہیں۔ معروف شاعر سرمد صہبائی نے کہا کہ میں کوئی نقاد نہیں ہوں، جب میں نے ناصرہ زبیری کی کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ مجھ پر نسائیت کا حملہ ہو گا لیکن پڑھنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ ایک شاعرہ ہیں۔ پروفیسرشاہدہ حسن نے کہا کہ ناصرہ زبیری کی یہ دوسری کتاب ہے جو کہ” شگون“ کے بعد آئی ہے ،وہ 16سال پہلے ملی تھیں جب وہ اسلام آباد ایک مشاعرے میں آئی تھیں،اس مشاعرے میں احمد فراز سمیت دیگر شعرائے کرام بھی موجود تھے جنہوں نے ناصرہ زبیری کے اشعاروں پر داد دی، ناصرہ زبیری نے اپنے دائروں میں رہتے ہوئے اپنے راستے خود متعین کئے ہیں اور بدلتے منظروں میں اپنی پہچان رکھتی ہیں،پہلی کتاب ”شگون” سے دوسری کتاب ”کانچ کا چراغ“ تک آتے ہوئے ان میں زیادہ جنون نظر آیا، ناصرہ زبیری نے اپنے پیش لفظ میں متوازی کائنات کا نام دیا ہے ۔ اس موقع پر سرمد صہبائی نے ناصرہ زبیری کے دو اشعار سنائے،ناصرہ زبیری کو ئی استاد تو نہیں لیکن ایسا مصرع کوئی استاد ہی لکھ سکتا ہے۔ اس موقع پر ناصرہ زبیری نے اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر شمیم حنفی اور دیگر شرکاء اور حاضرین محفل کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اظہار ہے مختلف لمحات کا، مختلف جذبات کا، اس کا تعلق کسی مرد یا عورت سے نہیں ہے،عورت کو معاشرے میں عورت ہی سمجھا جائے] اس کتاب سے وہ شہرت حاصل کرنا نہیں چاہتیں، یہ انداز کی آواز ہے جو میرے ساتھ پلی بڑھی ہے اور میرے ساتھ ساتھ چلی ہے، اس میں مختلف احساسات موجود ہیں۔ آخر میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر محمد احمد شاہ نے ناصرہ زبیری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ناصرہ زبیری کو اپنے شوہر کے بجائے آرٹس کونسل آف پاکستان کامشکور ہونا چاہئے کہ ان کی کتاب کی رونمائی ہوئی۔تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر ہما میر نے اداکیے۔