05 جنوری ، 2023
اگر شہباز شریف حکومت خراب معیشت کی بہتری اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانےکیلئے سخت فیصلے نہیں کر سکتی تو پھر حکومت سے چپکے بیٹھنے کا کیا جوازہے۔؟یا تو فیصلے کریں یا حکومت چھوڑ دیں کیوں کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ حکومت بڑے فیصلے کئےبغیر کسی معجزے کے انتظار میں بیٹھی رہے اور پاکستان خدا نخواستہ سری لنکا جیسے حالات سے دوچار ہو جائے۔
جو سخت فیصلے کرنے ہیں اُن سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا، بے روزگاری بھی بڑھی گی، غریب کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس کی زندگی مزید مشکل ہو جائے گی لیکن اگر سخت فیصلے نہ کئےگئے تو مہنگائی کا وہ طوفان آئے گا جو کسی سے سنبھالا نہیں جاسکے گا۔ ہماری قوم کے مقابلے میں سری لنکا کے لوگ بہت برداشت والے ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں جو کچھ ہوا وہ دنیا نے دیکھا اورآج بھی وہاں عوام کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ ہمارے ہاں تو عام جلسے جلوسوں اور سیاسی احتجاجوں میں جلاو گھیراو کر دیا جاتا ہے۔
اگر خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا ہے تو نجانے یہاں کیا کیا کچھ ہو جائے گا ، یاد رہے کہ پاکستان ایک نیوکلیئر ریاست ہے اور اگر یہاں بدامنی کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں تو دنیا ہم سے جو مطالبے کرسکتی ہے اُس کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔ ابھی جو سخت فیصلے کئے جانے کی ضرورت ہے اُن سے ن لیگ کو سیاسی نقصان ہونے کا اندیشہ ہے لیکن اگر ہم ڈیفالٹ کی طرف چلے گئے تو نقصان پاکستان کا ہو گا،عوام کا ہوگا اور ن لیگ کی سیاست کا تو بالکل ستیاناس ہو جائے گا۔ معیشت کے متعلق جو سخت فیصلے کرنے کا سوال ہے تو وہ یہ کہ پیٹرول اور ڈیزل تیس چالیس روپے فی لیٹر مہنگا ہوگا، جس سے سب کچھ مہنگا ہوجائے گا۔
ڈالر کے مقابلہ میں روپیہ مزید گرے گا جس کا مطلب ہے مزید مہنگائی۔ اس سے عوام خاص طور پر غریب اور مڈل کلاس کے حالات مزید خراب ہوں گے لیکن حکومت اگر اپنی گورننس کو بہتر کرے، معیشت کی بہتری اور اخراجات میں کمی لانے کیلئے ضروری اقدامات کرے تو حالات مہینوں میں ہی بدلنا شروع ہوجائیں گے۔ پاکستان میں پیسے والے لوگوں کی کمی نہیں لیکن ہم دنیا کے اُن چند بدقسمت ممالک میں شامل ہیں جہاں ٹیکس دینے والے بہت کم ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کاروباری لوگ، بڑے بڑے جاگیردار اور کروڑوں اربوں کمانے والے ٹیکس نہیں دیتے اور اگر دیتے ہیں تو بہت کم اور اس کیلئے اُنہوں نے پارلیمنٹ اور حکومتوں کے ذریعے قانونی رستے نکال رکھے ہیں۔
سیاست میں بڑے بڑے امیر لوگ اور ارب پتی بھی کروڑوں اربوں کماتے ہیں لیکن کم آمدنی ظاہر کرکے ٹیکس چوری کرتے ہیں اور جو آمدنی چھپائی جاتی ہے اُسے قانونی رستوں سے منی لانڈرنگ کے ذریعے وائٹ کرلیا جاتا ہے۔غریب کو تو indirect ٹیکسوں کے ذریعے نچوڑدیا جاتا ہے اور اس طرح غریب کا خون چوس کر اکٹھے کئے گئے پیسے کو اشرافیہ کی عیاشیوں پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امیر سے، تاجروں سے، بڑے بڑے زمینداروں سے ٹیکس لیں اور غریب پر خرچ کریں لیکن جب اس کیلئے کوئی کوشش کرتا ہے جیسا کہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل نے ایک بار کیا تو پھر مریم نواز کا حکم آ جاتا ہے کہ تاجروں پر سے ٹیکس واپس لو۔
بھئی اگر تاجر ٹیکس نہیں دیں گے، بڑے بڑے کاروباریوں کیلئے ٹیکس چوری کرنے کیلئے منی لانڈرنگ کے رستے کھلے رہیں گے تو پھر غریب بھوک کی وجہ سے خودکشی پر کیوں مجبور نہ ہو گا تو کیا ہو گا۔؟ مشکل فیصلوں سے مستقبل میں جان چھڑانی ہے تو پھر اپنی گورننس کو ٹھیک کریں، بجلی و گیس کی چوری کو روکیں، جو بل نہ دے اُس کا کنکشن کاٹیں۔ حکومت نااہل ہوگی گیس بجلی کی چوری کو نہیں روک پائے گی، وصولیاں کرنے میں ناکام ہوگی تو اس سے گردشی قرضوں میں اربوں کا اضافہ ہوتا جائے گا اور اس نااہلی کی وجہ سے حکومت عوام کیلئے بجلی اور گیس مزید مہنگی کرنے کا آسان فیصلہ کر دیتی ہے۔ یعنی امیر کی ٹیکس چوری اور حکمرانوں کی نااہلی کی سزا غریب عوام کو دی جاتی ہے۔
ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اب تو ہم گندم تک اپنی ضرورت کیلئے پیدا نہیں کر پا رہے۔ زرعی شعبہ پر ہی توجہ دی جاتی تو ہماری معیشت کا یہ حال نہ ہوتا لیکن اب تو حال یہ ہے کہ ہم سالانہ لاکھوں ایکڑ کی زرعی زمین ہاؤسنگ سوسائٹیاں کے حوالے کرتے جا رہے ہیں۔ نجانے بیس پچیس سال بعد پاکستان کا کیا حال ہو گا؟ ساری دنیا میں شام کو بازار اور مارکٹیں بند ہوجاتی ہیں اور اس سے بجلی کی بہت بچت ہوتی ہے لیکن ہم بضد ہیں کہ بازار رات گئے تک کھلے ہی رہیں گے۔
اگر حکومت فیصلہ کرلے تو کوئی سنتا ہی نہیں اور یہ بھی حکومت کی نااہلی ہے۔ سب سے افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان ، چاہے کسی بھی سیاسی جماعت کا نام لے لیں، وہ معیشت پر سیاست کرنے سے باز نہیں آتے یعنی ایک تو مل بیٹھ کر پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے پر تیار نہیں، اوپر سے اگر کچھ اچھا ہونے بھی لگے تو اُس پر سیاست کرکے اُسے ناکام بنا دیتے ہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں!!
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔