15 جنوری ، 2023
جی ہاں! عمران خان نے ’’سب کے‘‘ چھکے چھڑا دیے ہیں۔ جب سے اُنہیں عدم اعتماد کے ووٹ سے وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا گیا ہے، وہ ایک دن، ایک لمحہ چین سے نہیں بیٹھے۔ ہر روز وہ ایک نئے پینترے کے ساتھ سیاست پہ چھائے رہے۔ سیاست کے ماحول کے لوہے کو اُنہوں نے خوب گرم رکھا اور ہر سو ہتھوڑا چلاتے چلے گئے۔
اور ان کے سیاسی مخالفین معاشی گرداب میں پھنسی لاچار حکومت لے کر آئے روز ملک سنبھالنے کی غیر عوامی کوششوں کے ہاتھوں گناہ بے لذت سے بے مزہ ہوتے رہے۔ حکومت اس فکر میں ڈوبی رہی کہ ملک ڈیفالٹ نہ ہو اور عمران خان اس کی پروا کئے بغیر کہ ان کے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے والے چھکوں سے ملک کا چھکا چھوٹ جائے تو چھوٹا کرے ان کی بلا سے،اور ان کی سیاسی پرواز مخالفین کے چھکے چھڑاتی چلی جائے۔
پہلے تو انہوں نے ایسا خوفناک سازشی بیانیہ گھڑا کے نوجوان نسل آپے سے باہر ہوکر ان کے ساتھ نکل کھڑی ہوئی اور سیاسی مخالفین کی ہوائیاں اُڑی رہیں اور وہ عمرانی سازش کا لقمہ بنتے چلے گئے۔ ایسے میں وزیراعظم شہباز شریف کی آنیوں جانیوں کا تاثر نہ صرف پھیکا پڑ گیا بلکہ وہ ایک متبادل سیاسی لیڈر کے طور پر اُبھر ہی نہ سکے، کچھ ایسا ہی بلکہ اس سے برا حشر ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی چند روزہ وزارت اعلیٰ اور بطور قائد حزب اختلاف پنجاب اسمبلی کے ہوا جہاں سے وہ عین وقت لڑائی غائب پائے گئے۔
ایسے میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ بس مونچھوں کو تاؤ دیتے رہ گئے۔ لگتا ہے پنجاب میں ن لیگ کی سٹی، نواز شریف اور مریم نواز کی عدم موجودگی میں گم ہوکر رہ گئی۔ عمران خان کا جب سازشی بیانیہ پھیکا پڑا تو وہ پھر سے چوروں ڈاکوؤں کے خلاف پرانے بیانیے پہ چلے گئے اور پروپیگنڈہ وار فیئر میں کسی کے پلے کچھ نہ چھوڑا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے اوپر پلے بوائے ہونے کے الزام کو ’’قبول‘‘ کر کے جنسی محرومی کا شکار عوام کی تسکین کردی ۔
عوامی نفسیات سے کھیلنے کی مہارت صرف پاپولسٹ لیڈروں میں ہوتی ہے جس کا مظاہرہ کپتان نے خوب کردکھایا۔ ن لیگ والوں کی چٹکیاں اور لیکس والوں کی شرلیاں اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں۔ عمران خان سیاسی پاورا سٹرگل میں کس حد تک جاسکتے ہیں، انہوں نے اپنے تمام حریفوں کو انگلیاں چبانے پہ مجبور کردیا۔ انہوں نے پنجاب کے بڑے سیاسی دنگل میں جتنے راؤنڈ ہوئے ن لیگ کو ہر راؤنڈ میں ناک آئوٹ کردیا۔ خواہ وہ ضمنی انتخابات تھے جن میں ن لیگ کے کندھوں پر سوار ان کی پارٹی کے لوٹے تھے یا پھر پنجاب اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ پر ن لیگ کی دیوار پہ لکھی شکست۔ خان صاحب نے ن لیگ کو اپنی ہی پچ پہ کلین بولڈ کردیا، حالانکہ ضمنی انتخابات میں یہ پی ٹی آئی کی خالی نشستیں ہی تھیں جس پر عمران خان ان کی واپسی کےلئے لڑرہے تھے، یا پھر پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں اپنی ہی اکثریت کو برقرار رکھ سکے تھے۔ اس میں ان کا سب سے بڑا معاون خود ن لیگ کی غیر حاضر خاندانی قیادت تھی ۔
اب آتے ہیں عمران خان کے جلد انتخابات کروانے کے آخری جوئے پر۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کی مجوزہ تحلیل سے انہوں نے بڑا پارلیمانی خلا پیدا کردیا ہے جس طرح انہوں نے قومی اسمبلی سے استعفے دے کر پارلیمنٹ کو اپاہج کردیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اگلے نوے دنوں میں پنجاب اور پختونخوا دو صوبوں میں نئے انتخابات ہوں گے اور قومی اسمبلی اور دیگر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اگست میں ان اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے کے بعد منعقد ہوسکیں گے یا پھر فریقین کسی سمجھوتے پہ پہنچ سکیں گے؟
آئینی طور پر تو دو مرحلوں میں عام انتخابات کے انعقاد کی کوئی ممانعت نہیں اور نہ ہی عبوری حکومت کے قیام اور عرصہ پر کوئی ابہام ہے۔ لیکن دو اسمبلیوں کو برخاست کرکے عمران خان سیاسی بحران کو آخری حد تک لے گئے ہیں۔ اب اتحادی حکومت سیلاب زدگان کی امدادی رقوم اور آئی ایم ایف سے ممکنہ معاہدہ کی کیسی ہی تسلیاں دیتی رہے، سیاسی بحران سب کچھ لپیٹ دے گا۔
اگر وفاق میں بھی صدر مملکت نے وزیراعظم سے اعتماد کا ووٹ لینے کا مطالبہ کردیا تو یہ بحران موجودہ شکستہ حال پارلیمانی فریم ورک کو توڑ سکتا ہے۔ دو ووٹوں پہ اٹکی وفاقی حکومت کسی بھی وقت گرسکتی ہے۔ اگر مقتدرہ حکومت وقت کے ساتھ کھڑی ہوتی تو پنجاب اسمبلی ٹوٹتی اور نہ وفاقی حکومت کو کوئی خطرہ ہوتا۔ عمران خان کی یہ بھی بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے فوج کو پچھلے قدموں پہ جانے پہ مجبور کردیا ہے اور اس کی سیاست میں غیر جانبداری اُن کے خوب کام آئی۔
جو سب سے نازک سوال ہے جس کی عمران خان کو قطعی کوئی پروا نہیں وہ ہے کہ سیاسی بحران میں تعطل بڑھا یا وفاقی حکومت متزلزل ہوگئی تو عالمی برادری اور عالمی ادارے پاکستان میں کس سے رجوع کریں گے؟ یا پھر ہفتوں میں گھر جانے والی حکومت کیوں آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا بھاری پتھر اپنے سر پہ لادے گی؟اب تو اسلام آباد اور کراچی کے انتخابات کے التوا پر عمران خان اتحادی جماعتوں بارے یہ تاثر بھی پیدا کررہے ہیں کہ وہ انتخابات سے راہ فرار اختیار کررہی ہیں۔ نتیجتاً ہر دو صورتوں میں پاکستان کا مکمل دیوالیہ پٹ سکتا ہے۔ لیکن خان کو اس کی کیا پروا، اسے تو بس جلد از جلد وزارت عظمیٰ چاہئے بھلے ایک دیوالیہ پاکستان ہی کی سہی۔ آخر عمران خان اتنی جلدی میں کیوں ہیں؟ اس کی ایک وجہ تو وہ خدشہ ہے کہ انہیں سیاست سے نااہل کردیا جائے گا اور انکا دوسرا خدشہ ہے کہ ان کی مقبولیت کی لہر شاید زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکے۔ لہٰذا وہ ہر صورت ہر رکاوٹ اور ہر ریڈ لائن کو کراس کرنے پہ تلے بیٹھے ہیں۔ اب گیند وفاق کے پاس ہے کہ وہ کیسے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات کو اگست سے آگے لے جاتی ہے۔ وہ معاشی ایمرجنسی اور پنجاب اور پختونخوا میں گورنر راج لگاسکتی ہے۔ وہ اس بات کا جواز بھی بناسکتی ہے کہ اپریل میں نئی مردم شماری کے نتائج شائع ہونے پر اس کے مطابق حلقہ بندیوں کی تشکیل نو جولائی / اگست تک مکمل ہوجائے گی لہٰذا انتخابات اپنے وقت یعنی اکتوبر ہی میں منعقد ہوسکیں گے۔
یہی آئینی پوزیشن الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہوگی اور بالآخر معاملہ سپریم کوٹ کے پاس ہوگا۔ وہ کیا فیصلہ کرتی ہے، اللہ جانے۔ انتخابات تو دو مرحلے میں بھی ہوسکتے ہیں یا پھر جون / جولائی تک بھی نئی فہرستوں اور نئی حلقہ بندیوں پر بھی ہوسکتے ہیں بشرطیکہ سیاسی متحاربین کچھ لچک دکھائیں۔ لیکن اگر سیاسی قوتوں میں انتخابات کی شفافیت اور آزادانہ نوعیت پر سمجھوتہ نہ ہوسکا تو پھر اگلے انتخابات بھی متنازعہ ہوجائیں گے اور سیاسی بحران جاری رہے گا۔ اور اگر اس اثنا میں ملک ہی زمیں بوس ہوگیا تو ہماری تقدیر کے آخری منصف کیا روم جلنے پہ بانسری بجاتے رہ جائیں گے؟ سیاسی قوتوں کوہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اپنی اور آئینی نظام کی قبر کھودنے سے باز رہنا چاہئے۔ عمران خان کو سوچنا چاہئے کہ وہ جمہوریت کے گورکن بننے جارہے ہیں یا پھر کچھ اور؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔