15 جنوری ، 2023
ایم کیو ایم بند گلی میں آگئی تھی اس کا معاملہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا بن چکا تھا وہ الیکشن میں حصہ لیتی تو بری طرح ہارتی اور ابتدا میں ہی میئر کی دوڑ سے باہر ہوجاتی، سندھ گورنمنٹ کی جانب سے بلدیاتی حلقہ بندیوں کا نوٹیفکیشن واپس کرانے سے لے کر گورنر سندھ سے آرڈیننس جاری کرانے کے آئیڈیے تک کچھ بھی اس کے حق میں نہیں ہورہا تھا ایسے میں بائیکاٹ کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اور بائیکاٹ کرنے پر بھی مسئلہ یہ تھا کہ اسے بانی ایم کیو ایم کے بائیکاٹ سے جوڑ دیا گیا تو اس کے لیے مزید مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں یہ سب کچھ اور بہت کچھ تھا جو انتخابات کی چاند رات تک ایم کیو ایم کے ساتھ چلتا رہا۔
کراچی میں 15 جنوری 2023 کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات سوا دو سال کی تاخیر سے ہوئے یکم ستمبر 2020 کو کراچی کی سابقہ شہری حکومت نے اپنی مدت مکمل کرلی تھی جس کے سوا سال بعد دسمبر 2021 میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے فروری یا مارچ 2022 میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا تاہم بعد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 24 جولائی 2022 کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔
سندھ میں غیرمتوقع بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے پہلے 24 جولائی 2022 پھر 28 اگست 2022 پھر 14 ستمبر 2022 اور پھر18 اکتوبر 2022 کو بھی یہ بلدیاتی انتخابات نہ ہوسکے اور ایسا ہر بار سندھ حکومت کی درخواست پر کیا گیا۔
22 نومبر 2022 کو بالآخر الیکشن کمیشن نے کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کیلئے 15 جنوری 2023 کی تاریخ کا اعلان کیا اور اس بار وہ اس پر ڈٹ گیا۔ ابتدا میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دونوں ہی اس دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتی تھیں لیکن دونوں کی وجوہات مختلف تھیں
2015 کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کے میئر کے امیدوار وسیم اختر نے 64 فیصد سے زائد ووٹ لیے تھے، لیکن 2015 کے بلدیاتی انتخابات 1998 کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوئی حلقہ بندیوں پر ہوئے تھے۔
پیپلز پارٹی نے 2017 میں ہونے والی مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں کیں اور ایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ اس نے نئی حلقہ بندیوں میں جیری مینڈرنگ (انتخابی حد بندیوں میں ہیر پھیر کرنا) کی ہے۔
ایم کیو ایم کو اصل اعتراض ہی پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے ہاتھوں ہوئی حلقہ بندیوں پر تھا اور اسے پتہ تھا کہ اگر اس نے ان حلقہ بندیوں کے تحت الیکشن میں حصہ لیا تو شکست اس کا مقدر ہوگی، ساتھ ہی اسے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی بعض دیگر شقوں پر بھی اعتراض تھا۔
ایک طرف ایم کیو ایم اس معاملے کو لے کر سپریم کورٹ گئی تو دوسری طرف اس کی اس وقت کی حریف جماعت پی ایس پی نے اسی معاملے پر کراچی میں طویل دھرنا دیا، بعد ازاں ایک طرف سپریم کورٹ نے ایم کیو ایم کی درخواست پر یہ معاملہ واپس سندھ اسمبلی میں لے جا کر ترامیم کرنے کا حکم دیا تو دوسری طرف سندھ حکومت اور پی ایس پی میں بھی اس حوالے سے تحریری معاہدے میں یہ طے پایا کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں ترامیم کی جائیں گی، لیکن تادم تحریر گزشتہ رات بذریعہ آرڈیننس ترمیم کی ایک کوشش کے علاوہ کوئی اور سنجیدہ کوشش ہوتی نظر نہیں آئی۔
ایم کیو ایم جب پی ٹی آئی کی حکومت چھوڑ کر پی ڈی ایم کا حصہ بنی تو اس وقت بھی اس نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں ترامیم کے مطالبے کو تحریری معاہدے کا حصہ بنایا جس پر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے بھی دستخط کیے، لیکن 13 اور 14 جنوری 2023 کی درمیانی رات ڈیڑھ بجے تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔
13 جنوری کو ایم کیو ایم سے الگ ہونے والے دونوں دھڑے پی ایس پی اور ڈاکٹر فاروق ستار کی تنظیمی بحالی کمیٹی، دوبارہ ایم کیو ایم میں ضم ہوگئے، پریس کانفرنس کے بعد رابطہ کمیٹی کے طویل اجلاس میں ایم کیو ایم نے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو پیغام دیا کہ اگر بلدیاتی انتخابات انہی حلقہ بندیوں پر کرائے گئے تو وہ پی ڈی ایم سے الگ ہوجائے گی۔
بلاول ہاوس میں رات گئے بلاول بھٹو کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے بعد سندھ حکومت نے بلدیاتی حلقہ بندیوں کا نوٹیفکیشن واپس لینے کا اعلان کردیا، بظاہر اس سے یہ لگ رہا تھا کہ ایم کیو ایم کی مشکلات ختم ہوگئیں اور اب 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات تو کیا آئندہ بلدیاتی انتخابات بھی موجودہ حلقہ بندیوں پر نہیں ہوں گے اور الیکشن کمیشن کو ناصرف حلقہ بندیاں دوبارہ کرنا پڑیں گی بلکہ آئندہ بلدیاتی انتخابات کیلئے انتخابی شیڈول بھی دوبارہ جاری کرنا پڑے گا۔
ایم کیو ایم کو موجودہ بلدیاتی انتخابات سے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ انضمام سے پہلے ایم کیو ایم، پی ایس پی اور ڈاکٹر فاروق ستار کے امیدواروں نے الگ الگ کاغذات نامزدگی داخل کیے تھے، انضمام کے بعد ایم کیو ایم کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ وہ اپنے ووٹر کو یہ کیسے سمجھائے کہ اس نے کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے بلدیاتی حلقہ بندیوں کا نوٹیفکیشن واپس لیے جانے کے بعد ایم کیو ایم نے سکون کا سانس لیا تھا لیکن یہ سکون عارضی ثابت ہوا، رات گئے انتخابات ملتوی کراکر سوجانے والے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو صبح اٹھ کر اس وقت بڑا جھٹکا لگا جب چیف الیکشن کمشنر نے آئین کے آرٹیکل 219 کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سندھ حکومت کی درخواست ایک بار پھر مسترد کردی اور اس کا نوٹیفکیشن واپس لینے کا اعلان بھی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ انتخابات معمول کے مطابق 15 جنوری کو ہی ہوں گے۔
یہاں سے ایم کیو ایم بند گلی میں آگئی، اگر موجودہ حلقہ بندیوں اور موجودہ بیلٹ پیپر پر الیکشن میں حصہ لیتی ہے تو جیت کا کوئی امکان نہیں تھا تاہم اس کے باوجود ایک موقع پر ایم کیو ایم نے یہ فیصلہ کرلیا کہ انتخابات میں حصہ لے لیا جائے لیکن خود اس کا اپنا ہی بیان اس کے آڑے آگیا۔
دو روز قبل ہی الیکشن کمیشن کے باہر مشترکہ احتجاج کے موقع پر ایم کیو ایم نے موجودہ حلقہ بندیوں پر ہونے والے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا، اس موقع پر سابق وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی انٹری ہوئی اور ایم کیو ایم کو لگا کہ ان کے مسائل کا حل یہی ہے۔
فروغ نسیم نے مشورہ دیا کہ چونکہ سندھ اسمبلی کا اجلاس جاری نہیں ہے تو گورنر ان حالات میں اگر ایک آرڈیننس جاری کردے تو الیکشن کا انعقاد روکا جاسکتا ہے، آرڈیننس کے ذریعے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں ترمیم کردی جائے۔
اس ترمیم کا مسودہ بھی تیار کرلیا گیا، آرڈیننس کے مسودے میں مجوزہ ترمیم میں کہا گیا تھا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی دفعہ 34 کی ذیلی دفعہ 2 میں اے اور بی کا اضافہ کیا جارہا ہے۔ 2 اے کے تحت اگر یونین کونسلز، یونین کمیٹیز اور وارڈز کی تشکیل میں کوئی غلطی سامنے آئے اور حکومت ایمانداری سے شفاف انتخابات کرانے کیلئے دفعہ 10 کی ذیلی دفعہ 1 کے تحت بلدیاتی حلقہ بندیوں کا نوٹیفکیشن واپس لیتی ہے تو الیکشن کا تمام عمل فوری طور پر ناصرف رک جائے گا بلکہ ختم ہوجائے گا۔
ایکٹ میں مجوزہ دوسری ترمیم یعنی 2 بی میں کہا گیا تھا ایسی صورت میں الیکشن کمیشن حکومت کے مشورے سے نیا الیکشن شیڈول جاری کرے گا۔
یہ آرڈیننس بھی ایم کیو ایم کی مشکلات ختم کرسکتا تھا لیکن بھلا ہو کچھ لوگوں کا جنہوں نے یہ آرڈیننس بھی جاری نہیں ہونے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر نہایت جارحانہ موڈ میں ہیں اور وہ 15 جنوری کو ہر حال میں الیکشن کرانا چاہتے ہیں، اگر انہوں نے گورنر کے جاری کردہ آرڈیننس کو بھی مسترد کردیا تو سندھ حکومت اور گورنر کہاں کھڑے ہوں گے۔
ایم کیو ایم کے پاس ایسے وقت میں بائیکاٹ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، لیکن مصیبت یہ تھی کہ بانی ایم کیو ایم الطاف حسین پہلے ہی بائیکاٹ کا اعلان کرچکے تھے اور ان حالات میں ایم کیو ایم پاکستان کا بائیکاٹ کا اعلان ایم کیو ایم لندن کے بائیکاٹ کے تسلسل یا اس کی توثیق کے طور پر لیا جاتا اور ایم کیو ایم کیلئے مشکلات مزید بڑھ سکتی تھیں، تاہم ایم کیو ایم کو یقین دلایا گیا کہ ایسا نہیں ہوگا بس ایم کیو ایم پاکستان کو اتنا کرنا ہوگا کہ وہ اپنی بائیکاٹ کی اپیل کو بار بار نہ دہرائے اور ایم کیو ایم نے ایسا ہی کیا۔
ایم کیو ایم بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت اور پی ڈی ایم سے بھی باہر آنا چاہتی تھی لیکن اسے یہ سبز باغ دکھائے گئے کہ ایم کیو ایم کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا بھی مستقبل قریب میں فائدہ ہوگا، اگر کراچی سے پی ٹی آئی یا جماعت اسلامی کا میئر بن جاتا ہے تو وسیم اختر کی طرح وہ ایک بے اختیار میئر ہوگا، پیپلز پارٹی کی حکومت اسے فنڈز جاری نہیں کرے گی اور 6 ماہ میں ہی کراچی کے عوام کو اپنے انتخاب کی غلطی کا احساس ہوجائے گا۔
ایم کیو ایم اگر وفاقی حکومت کا حصہ رہتی ہے تو جیسا کہ امکان ہے کہ اگلے چند روز میں وزیراعظم شہباز شریف کو بھی اعتماد کا ووٹ لینا پڑ سکتا ہے اور عمران خان اس کا عندیہ دے بھی چکے ہیں، تو ایم کیو ایم اس وقت وفاقی حکومت سے کراچی کے لیے ایک اچھا پیکج لے سکتی ہے، اس طرح اسے 2023 کے عام انتخابات میں جانے سے پہلے عوام میں اپنا امیج بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
ایم کیو ایم اور اس میں واپس شامل ہونے والے رہنما اس معاملے پر پوری طرح کنوینس نہیں تھے، ان کا موقف تھا کہ ماضی میں 2001 میں بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ ان کی غلطی تھی جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو شہر کی نظامت ملی اور انہوں نے شہر کے چند بنیادی مسائل پر فوکس کرکے انہیں حل کیا جسے کراچی کے شہری آج بھی یاد کرتے ہیں، بائیکاٹ کی صورت میں بننے والا میئر اگر کراچی کے شہریوں کو کچھ ڈیلیور کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اس سے ایم کیو ایم کے لیے مزید مسائل جنم لے سکتے ہیں لیکن ایم کیو ایم کے پاس بائیکاٹ کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں بچا تھا سو ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کردیا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔