Time 23 جنوری ، 2023
پاکستان

آج جھوٹے کیس کا انجام ہو گیا، اللہ اور جج نے میرے ساتھ انصاف کیا: راؤ انوار

جب تک جان میں جان سے اپنا کام جاری رکھوں گا: سابق ایس ایس پی ملیر۔ فوٹو فائل
جب تک جان میں جان سے اپنا کام جاری رکھوں گا: سابق ایس ایس پی ملیر۔ فوٹو فائل

نقیب اللہ محسود قتل کیس میں عدالت سے بری ہونے والے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کہنا ہے اس کیس میں میرے ساتھ نا انصاف ہوئی لیکن آج اللہ اور جج نے انصاف کیا۔

نقیب اللہ محسود قتل کیس میں بری ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے راؤ انوار کا کہنا تھا آج ایک جھوٹے کیس کا انجام ہو گیا۔

راؤ انوار کا کہنا تھا پولیس مقابلے میں جس کو گولی لگی وہ ایک اشتہاری ملزم تھا، مقتول کا نام نسیم اللہ تھا لیکن اس کا غلط فوٹو میڈیا پر چلوایا گیا۔

ان کا کہنا تھا اس جھوٹے کیس میں 25 لوگوں کو نامزد کیا گیا، میرے ساتھ اور کراچی شہر کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی، لیکن آج اللہ نے اور جج نے میرے ساتھ انصاف کیا۔

سابق ایس ایس پی ملیر کا کہنا تھا اس کیس کے حوالے سے میں ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز کروں گا اور انٹر ویوز بھی دوں گا،  میں نے کراچی کی بہت خدمت کی، بہت سارے ظالموں سے اس شہر کو نجات دلائی ہے، جب تک جان میں جان ہے اپنا کام جاری رکھوں گا۔

کیس کا پسِ منظر

نقیب اللہ محسود، صابر اور اسحاق کو 13 جنوری 2018 کو شاہ لطیف ٹاؤن تھانے کی حدود میں جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا تھا، پولیس نے پہلے واقعے کو پولیس مقابلہ ظاہر کیا اور بتایا کہ مارے جانے والے چاروں افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان سے تھا۔

نقیب اللہ محسود کے اہلخانہ نے پولیس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ نقیب اللہ محسود کا کسی طالبان گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا جس کے بعد پولیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے کیس کی تفتیش کی اور اپنی رپورٹ میں بتایا کہ نقیب اللہ محسود اور  دیگر کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا۔

عدالت نے اس وقت کے ایس ایس پی راؤ انوار سمیت 18 ملزمان پر 25 مارچ 2018 میں فرد جرم عائد کی تھی جب کہ  عدالت نے کیس میں 51 گواہان کے بیان قلم بندکیے۔

کیس میں راؤ انوار سمیت سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس قمر ضمانت پر ہیں جب کہ دیگر 13 ملزمان اس کیس میں جیل میں ہیں۔

اس کے علاوہ سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت اور شعیب شیخ سمیت 7 ملزمان تاحال کیس میں مفرور ہیں۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے کیس میں حتمی دلائل مکمل ہونے پر 14 جنوری کو کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

مزید خبریں :