29 جنوری ، 2023
جس وقت یہ کالم لکھا جا رہا ہے اس سے اگلے دن مریم نواز کی واپسی متوقع ہے۔ ان کی واپسی اس سیاسی ابتلا کے مرحلے پر بہت اہم ہے۔ وہ اب پارٹی کی نائب صدر کے بجائے سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر کی حیثیت سے وطن کی مٹی پر قدم رکھیں گی۔ اب ان کے کاندھوں پر ذمہ داری کا بھاری بوجھ ہے۔
چیف آرگنائزر ایک طرح کا پارٹی ڈی فیکٹو پریذیڈنٹ ہوتا ہے۔ پارٹی کے بیانیے سےتعیناتیوں تک کی ذمہ داری اس پر ہوتی ہے۔ یہ بہت اہم سیاسی ذمہ داری ہے۔ اب معاملہ صرف پارٹی کا نہیں بلکہ پارٹی کے ارد گرد بکھری سیاست کا بھی ہے۔ اب بہت سے لوگ ان کے آنے سے بہت کچھ ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن بہت کچھ کرنے سے پہلے ، ان کی کارکردگی جانچنے سے پہلے، ہمیں ان حالات کا جائزہ لینا ہے جن میں وہ واپس آ رہی ہیں۔
عمران خان کی حکومت کی بدترین کارکردگی کے بعد لوگوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اب پی ڈی ایم کی حکومت آ گئی ہے۔ اب شہبازشریف وزیر اعظم بن گئے ہیں ۔ اب مہنگائی کا بحران ٹلے گا ، اب بے روزگاری کا طوفان تھمے گا ، اب سیاست کا میدان جمے گا لیکن موجودہ حکومت کی کارکردگی نے عمران خان حکومت کی نااہلی کو بھی بھلا دیا ہے۔
مہنگائی آگ بن کر خلق خدا پر برس رہی ہے۔ ترقیاتی منصوبے تھم گئے ہیں۔ روزگار کے مواقع مفقود ہو رہے ہیں۔ بیرونی دنیا سے وعدے ہو رہے ہیں لیکن وفا نہیں ہو رہے۔ عمران خان اپنے منفی بیانیے سے ہر مثبت سوچ کو مات دے رہے ہیں۔ان حالات میں مریم نواز کیا بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ٹھٹھہ اڑائیں گی ؟ بے روزگاری کو بھول جانےکا کہیں گی؟ شہباز اسپیڈ کی تازہ ترین صورت حال کا دفاع کریں گی؟ اگر ایسا ہوا تو ان کی کامرانی کے اقدامات معدوم ہیں ۔ کیونکہ اس بدنظمی ، مہنگائی اور ابتلاکا کوئی بھی دفاع نہیں کر سکتا اور جو دفاع کرے گا وہ عوام کے غیظ و غصب کا نشانہ بنے گا۔ پس ثابت یہ ہوا کہ مریم نواز موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے دفاع کے مشن پر نہیں ہوں گی ؟
کیا مریم نواز اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو موضوع بنائیں گی۔ یہ بھی دشوار ہے کیونکہ عمران خان اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے میں اپنا سارا حصہ ڈال چکے ہیں۔ حالانکہ خان صاحب کسی طرح بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں رہے ۔ وہ تو ان کے کاندھوں پر سوار ہو کر آئے ہیں۔ آج بھی ان کی خواہش یہی ہے اسٹیبلشمنٹ ان کی طرف نظر کرم کرے۔ یوں لگتا ہے خان صاحب نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے سبق سیکھ لیا ہے۔ وہ بظاہر کاروبار سیاست سے دور ہو چکے ہیں۔ اب نہ دو ہزار اٹھارہ والے الیکشن ہو رہے ہیں نہ عدالتیں خان صاحب کو صادق اور امین رکھنے پر مصر ہیں ۔ اب ایک نیا دور ہے ایک نیا دن ہے جس کا خواب کبھی ا س ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے بھی نہیں دیکھا تھا ۔
شہباز شریف کے حکومت میں آنے سے ، پی ڈی ایم کا خان کی حکومت گرانےسے مسلم لیگ ن کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ فوت ہو چکا ہے۔ شہباز شریف اکثر عمران خان کی بدخوئیاں کرتے ہیں مگر عمران خان کو لانے والوں کا ذکر کرتے انہیں بھی حجاب آتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ مریم نواز کے پاس اب اینٹی اسٹیبلشمنٹ کمپین کی سہولت بھی موجود نہیں ہے۔ وہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی شکر گزار تو ہو سکتی ہیں مگر ان کے خلاف مزاحمت کا نعرہ نہیں بلند کر سکتیں۔
ان کے پاس عوام کے پا س جانے کے لئے صرف دو موضوعات بچتے ہیں ۔ ایک تو ان کا محبوب موضوع ہے جس کو وہ ’’فتنہ خان‘‘ کہہ کر پکارتی ہیں۔ اس شخص نے جس طرح اس سیاست ، سماج ، اخلاقیات اور ایوان کی عظمت کو تار تار کیا وہ کچا چٹھا لوگ مریم نواز کے زبان سے سننا چاہیں گے۔ خان صاحب کے یو ٹرن اتنے ہیں کہ ان پر درجنوں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ ابھی تک عمران خان اکیلے ہی میدان میں ہیں ۔ ان کو کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا۔ جس سے انکا بیانیہ لوگوں کے ذہنوں میں سرایت بھی کر رہا ہے۔ مریم نواز کی صورت میں عمران خا ن کو پہلا چیلنج درپیش ہو گا۔ خان صاحب کو شروع ہی سے مریم نواز سے خطرہ تھا اسی لئے ان کے حوالے سے انہوں نے تضحیک اور تحقیر کے کسی پہلو کو نہیں چھوڑا ۔
مریم نواز کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے اس نفرت انگیز بیانیے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آج پھر ڈٹ کر کھڑی ہیں۔مریم نواز کے پاس دوسرا موضوع وہ نظام ہے جس کے ذریعے عمران خان جیسی کٹھ پتلیاں وجود میں آتی ہیں ۔ ایسا نظام جو کمزور سیاسی طاقتوں کو اتنی قوت عطا کرتا ہے کہ وہ اصل سیاسی قوتوں پر غلبہ پا لیتی ہیں۔ ایسا نظام جو آئین کا مقام ردی کی ٹوکری سمجھتا ہے۔اس نظام کو کھول کر بیان کرنا ، عمران خان کو لانے والوں پر ضرب کاری کرنا ان کا موضوع ہو سکتا ہے۔ یہ وہ موضوع ہے جو کھل کر صرف ایک دفعہ گوجرانوالہ کی تقریر میں نواز شریف کی زبان پر آیاتھا ۔ اس کےبعد وہاں بھی خاموشی چھا گئی۔ مریم نواز اس جمود کو توڑ سکتی ہیں۔ وہ باتیں کہہ سکتی ہے جو اب تک نہیں کہی گئیں ۔مریم نواز میں یہ اہلیت ہے کہ عمران خان کی بات کا جواب عمران خان کے انداز میں دے سکتی ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔