30 جنوری ، 2023
اپنی حکومت کے خاتمے سے کچھ عرصہ قبل عمران خان نے کہا تو سچ تھا کہ حکومت سے نکل کر وہ زیادہ خطرناک ہو جائیں گے۔ سچ پوچھیں تو وہ خطرناک نہیں بلکہ بہت خطرناک ہو چکے ہیں۔
بحث اس بات پر ہو سکتی ہے کہ وہ کس کس کیلئے کتنے خطرناک ہوئے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اقتدار سے نکلنے کے بعد اپنے لئے بھی بہت خطرناک ثابت ہوئے۔
ایک طرف اگر اُنہوں نے ایسے فیصلہ کئے جن سے اُنہیں بہت سیاسی نقصان ہوا اور خطرہ ہے کہ مزید سیاسی نقصان ہوگا تو دوسری طرف اُنہوں نے کچھ دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنی جان کو بھی خطرہ میں ڈالا اور اب بھی ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ جن سے یہ خطرات بڑھ رہے ہیں۔
ویسے تو تحریک انصاف کی غیر مقبول حکومت کا خاتمہ کر کے اور ایک ایسے وقت پر حکومت سنبھال کر جب سب کو معلوم تھا کہ اب معیشت بغیر مشکل ترین فیصلے کئے بغیر سنبھل نہیں سکتی، پی ڈی ایم نے عمران خان کو عوامی مقبولیت کے عروج پر پہنچا دیا۔
آج حالت یہ ہے کہ لوگ بھول چکے کہ عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے پروگرام کے ساتھ کیا کھلواڑ کر کے پاکستان کی معیشت کے ساتھ کیا ظلم کیا۔؟
اب تمام توپوں کا رخ پی ڈی ایم حکومت اور خصوصاً ن لیگ کی طرف ہے کیوں کہ توقع کے مطابق معاشی حالات نے خراب سے خراب تر ہونا تھا اور معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے آئی ایم ایف کو دوبارہ راضی کرنا لازم تھا، جس کیلئے جن شرائط کو پورا کرنا تھا اُس سے مہنگائی کے طوفان نے آنا ہی تھا۔ اب ن لیگ تو ایسی بُری پھنسی ہے کہ اس کے پاس اپنی سیاست قربان کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ مشکل فیصلے نہ کئےتو پاکستان ڈیفالٹ کی طرف چلا جائے گا جس سے پاکستان کوناقابل تلافی نقصان ہو گا اور ایسی صورت میں ن لیگ کی سیاست بالکل ہی دفن ہو جائے گی۔
مشکل فیصلے کر کے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے علاوہ اب ن لیگ کے پاس کوئی چارہ نہیں لیکن اس صورت میں بھی اسی کا سیاسی نقصان ہوگا اور عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ۔
دریں حالات، جب عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اُن کیلئے سیاسی طور پر بہت بڑے فائدے میں بدل گیا ہے تو پھر خان صاحب کو اپنی سیاست اور اپنے لئے مشکلات پیدا کرنی کی کیا ضرورت تھی؟ جب اُن کے سیاسی مخالفین نے اقتدار میں آنے کے جنون میں بڑی سیاسی غلطی کر دی اور سب پر واضح ہو گیا کہ عمران خان ہی اگلا الیکشن جیتے گا تو پھر خان صاحب کو پہلے جنرل باجوہ کی اسٹیبلشمنٹ اور پھر موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سینگ پھنسانے کا کیا فائدہ ہوا؟
خان صاحب نے اسٹیبلشمنٹ پر ہر قسم کے الزامات لگائے جس کا نقصان خود اُن کو ہو رہا ہے اور انہوں نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ کوئی اسٹیبلشمنٹ آئندہ اُن پر اعتماد نہیں کر سکتی۔ ہر کوئی ڈر رہا ہے کہ نجانے کس پر وہ کیا الزام لگا دیں۔
اُنہوں نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے کر اور پھر پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اپنی حکومتیں ختم کر کے، اسمبلیاں تحلیل کر کے اپنی ہی سیاست کو نقصان پہنچا دیا اور آج تحریک انصاف اور پرویز الٰہی کی ق لیگ میں ایک واضح پچھتاوا نظر آ رہا ہے کہ کاش ایسا نہ کیا ہوتا۔
پنجاب کو اپنے ہاتھ سے نکال کر پی ڈی ایم کے نگراں وزیراعلیٰ کے ہاتھ تھما کر اب عدالت میں جا رہے ہیں کہ اس فیصلہ کو واپس لیا جائےجو ممکن نظر نہیں آتا۔ ایک طرف صوبائی الیکشن مشکوک ہیں تو دوسری طرف اب پچھتاوا یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے تمام ممبران کے استعفے قبول کر لئے گئے ہیں۔ اب غور ہو رہا ہے کہ عدالت کے ذریعے کسی طرح چالیس پینتالیس اراکین کے استعفی واپس کروا ئے جائیں ۔ یہ بھی کوئی اتنا آسان نظر نہیں آ رہا۔
ان سیاسی نقصانات کے علاوہ خان صاحب نے لانگ مارچ میں بے احتیاطی کی وجہ سے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا۔ شکر ہے قاتلانہ حملہ میں اُن کی جان بچ گئی لیکن وہ ہیں کہ مسلسل اپنے سیاسی مخالفین اور عسکری اداروں کے اعلیٰ افسران پر اپنے قتل کئے جانے کی سازشیں کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ اُنہوں نے پلان اے، پلان بی اور پلان سی کی بات کی۔ وہ فوجی افسران اور اپنے سیاسی مخالفوں کے نام لے لے کر سازش کے الزامات لگاتے جا رہے ہیں۔ اُن کے پاس کوئی ثبوت نہیں، نہ ہی ان الزمات میں کوئی جان ہے۔
البتہ یہ حقیقت ہے کہ اُن کے الزامات اگر دوسروں کیلئے خطرناک ہیں تو یہ بات عمران خان صاحب کو بھی سمجھنی چاہئے کہ جس قسم کا وہ ماحول بنا رہے ہیں اور اپنے متعلق جو سازش کے سنگین الزامات اپنے سیاسی مخالفین (جو حکومت میں ہیں) اور اداروں کے افسران پر لگا رہے ہیں، اس سے خدانخواستہ پاکستان کے دشمن فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔