زلزلے کیوں آتے ہیں اور ان کی پیشگوئی کرنا اتنا مشکل کیوں ہے؟

ہر روز سیکڑوں زلزلے آتے رہتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ اتنی کم شدت کے ہوتے ہیں کہ ہم انہیں محسوس ہی نہیں کر پاتے— فوٹو: الجزیرہ
ہر روز سیکڑوں زلزلے آتے رہتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ اتنی کم شدت کے ہوتے ہیں کہ ہم انہیں محسوس ہی نہیں کر پاتے— فوٹو: الجزیرہ

اگر آسان ترین الفاظ میں بیان کیا جائے تو زمین کی تھرتھراہٹ (Shaking) کو زلزلہ کہا جا سکتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر روز سیکڑوں زلزلے آتے رہتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ اتنی کم شدت کے ہوتے ہیں کہ ہم انہیں محسوس ہی نہیں کر پاتے۔

 کبھی کبھار ہی بہت خطرناک نوعیت کے زلزلے آتے ہیں جو بڑے پیمانے پر تباہی اور اموات کا سبب بنتے ہیں۔ اور تب بہت سارے سوال پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

زلزلوں کے پیچھے کس کا ’فالٹ‘ ہے؟

زمین کی سطح کسی جگسا پزل کی طرح کٹے ہوئے سخت پتھر کے طویل ٹکڑوں کی بنی ہوئی ہے۔ حرکت کرتے ان پزل کے ٹکڑوں کو ٹیکٹونک پلیٹس (Tectonic Plates) کہا جاتا ہے جو کہ پتھر کے ابلتے ہوئے لاوے پر تیرتی اورمسلسل حرکت کرتی رہتی ہیں۔

ان ٹیکٹونک پلیٹوں کے باہمی سنگم  کے مقامات سے زلزلے آتے ہیں اور آتش فشاں پھٹ کر  باہر نکلتے ہیں۔ تکنیکی اعتبار سے پلیٹیں ہمیشہ حرکت میں رہتی ہیں لیکن آپس میں جڑی رہتی ہیں۔

 جب ان کے نیچے دباؤ بڑھتا ہے اور کوئی چیز باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ الگ ہوجاتی ہیں اور ایسی دراڑوں کو ’فالٹس‘ کہتے ہیں۔

جس وقت ان پلیٹوں پر اچانک سے دباؤ بڑھتا ہے اور یہ الگ ہوتی ہیں تو  دباؤ کی توانائی پوری پلیٹوں پر پھیل جاتی ہے۔

ٹیکٹونک پلیٹوں کے باہمی سنگم کے مقامات سے زلزلے آتے ہیں اور آتش فشاں پھٹ کر باہر نکلتے ہیں یہ پلیٹیں ہمیشہ حرکت میں رہتی ہیں لیکن آپس میں جڑی رہتی ہیں — فوٹو: فائل
ٹیکٹونک پلیٹوں کے باہمی سنگم کے مقامات سے زلزلے آتے ہیں اور آتش فشاں پھٹ کر باہر نکلتے ہیں یہ پلیٹیں ہمیشہ حرکت میں رہتی ہیں لیکن آپس میں جڑی رہتی ہیں — فوٹو: فائل

زلزلے کی طاقت کا اندازہ کیسے لگایا جاتا ہے؟

سائنسدانوں کی جانب سے زلزلوں یعنی زمین کی تھرتھراہٹ کی پیمائش کیلئے سیسموگراف (Seismographs) کا استعمال کیا جاتا تھا، یہ دراصل ہلتی ہوئی سوئیاں ہوتی تھیں جو زمین کی تھرتھراہٹ کو ریکارڈ کرتی تھیں تاہم اس وقت اس کام کیلئے ڈیجیٹل آلات کا استعمال کیا جاتا ہے۔

زلزلے کی شدت کی پیمائش کیلئے عالمی اور مقامی نیٹورکس موجود ہیں جو زلزلوں سے  متعلق ڈیٹا جمع کرتے ہیں۔ ان کی جمع کردہ معلومات اوپن سورس ہوتی ہے اور یہ آپس میں جڑے رہتے ہیں۔

کسی بھی زلزلے کی شدت کا اندازہ لگانے کیلئے تین مختلف پیمائشوں کا موازنہ کرنے کے بعد زلزلے کی شدت، گھرائی، دورانیے اور مقام کا تعین کیا جاتا ہے۔

سائنسدانوں کی جانب سے زلزلوں یعنی زمین کی تھرتھراہٹ کی پیمائش کیلئے سیسموگراف (Seismographs) کا استعمال کیا جاتا تھا — فوٹو: فائل
سائنسدانوں کی جانب سے زلزلوں یعنی زمین کی تھرتھراہٹ کی پیمائش کیلئے سیسموگراف (Seismographs) کا استعمال کیا جاتا تھا — فوٹو: فائل

کیا ایک زلزلہ دوسرے کا سبب بن سکتا ہے؟

اگرچہ عام طور پر مانا جاتا ہے کہ ایک زلزلہ دوسرے کا سبب بنتا ہے لیکن پھر بھی اس موضوع پر سائنسدانوں کے درمیان اب تک شدید بحث جاری ہے۔

زلزلےانسان کی جانب سے فطری دنیا کو سمجھنے کے  دعوؤں میں دو بڑے خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اول یہ کہ یہ زلزلے انسانی مشاہدے سے کہیں زیادہ طویل دورانیے تک جاری رہنے والے عمل کا نتیجہ ہوتے  ہیں اور دوسرا یہ کہ یہ اتنی گہرائی میں ہوتے ہیں جہاں انسان کے براہ راست مشاہدے کی اہلیت دم توڑ جاتی ہے۔

ان بڑی رکاوٹوں کے باوجود سائنسدان  ایسے طریقے دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جن سے  زلزلوں کے امکانات کا حساب لگایا جا سکے۔

زلزلے کے بعد سائنسدان جمع شدہ ڈیٹا کا مطالعہ کرتے ہیں تاکہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں کہ ممکنہ طور پر آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔ واشنگٹن یونیورسٹی میں ارتھ سائنسز کے پروفیسر ہیرالڈ ٹابن کہتے ہیں کہ ہم نے زمین کے سطح پر اسٹیتھواسکوپ رکھ دیا ہے تا کہ جان سکیں کہ اس کے نیچے کیا ہو رہا ہے۔

برطانیہ کے سینٹر فار آبزرویشن اینڈ ماڈلنگ آف ارتھ کوئیک سے منسلک ٹم رائٹ کہتے ہیں کہ زلزلوں کے اسباب کے حوالے سے وسیع خیال تو یہی ہے کہ یہ زیر زمین آتش فشاؤں اور ٹینکٹونک پلیٹوں کے درمیان پیدا ہونے والے دباؤ کا نتیجہ ہوتے ہیں، لیکن گزشتہ 20 سالوں کے دوران جدید ٹیکنالوجی اور سیٹلائیٹ انفارمیشن کے ذریعے ہم اس کی پیمائش کے قابل ہو چکے ہیں۔

سائنسدانوں سے ہمیشہ یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا زلزلے کی پیشگوئی کرنا ممکن ہے؟ امریکی جیولوجیکل سروے کے رائٹ کا کہنا ہے کہ زلزلے کی پیشگوئی کے معاملے میں ’ہنوز دلی دور است’، لیکن ہاں ہم شارٹ ٹرم پیشگوئی ضرور کر سکتے ہیں— فوٹو: فائل
سائنسدانوں سے ہمیشہ یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا زلزلے کی پیشگوئی کرنا ممکن ہے؟ امریکی جیولوجیکل سروے کے رائٹ کا کہنا ہے کہ زلزلے کی پیشگوئی کے معاملے میں ’ہنوز دلی دور است’، لیکن ہاں ہم شارٹ ٹرم پیشگوئی ضرور کر سکتے ہیں— فوٹو: فائل

زلزلہ آنے کا ہمیں کیسے معلوم ہو سکتا ہے؟

سائنسدانوں سے ہمیشہ یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا زلزلے کی پیشگوئی کرنا ممکن ہے؟ اس کے جواب میں امریکی جیولوجیکل سروے کے رائٹ کا کہنا ہے کہ زلزلے کی پیشگوئی کے معاملے میں ’ہنوز دلی دور است’، لیکن ہاں ہم شارٹ ٹرم پیشگوئی ضرور کر سکتے ہیں۔

رائٹ کہتے ہیں کہ کسی بڑے زلزلے کے بعد بہت سارا ڈیٹا جمع کرنے اور پھر اسے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے ڈیٹا سے ملنے والی معلومات میں سے کچھ معلومات زلزلے کے فوری بعد کیلئے بہت کارآمد ہوتی ہے کیوں کہ اس  کے ذریعے فوری طور پر حساب لگایا جا سکتا ہے کہ اس زلزلے کے بعد کون سے ممکنہ مقامات پر زلزلے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ ترکیہ میں 6 فروری کو آنے والے زلزلے کے بارے میں انسار  (Interferometric Synthetic Aperture Radar) کا  ڈیٹا پہنچنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس ڈیٹا سے ہم معلوم کر پائیں گے کہ اس مخصوص مقام پر اس زلزلے سے کتنے توانائی خارج ہوئی اور مستقبل میں کس درجے کی توانائی کے اخراج  کا امکان ہے  لیکن ہم اس سے بارے میں کچھ نہیں جان سکتے ہیں کہ وہ کب ہوگا، نہ ہی ہم یہ معلوم کر پائیں گے کہ وہ ایک میگنیٹیوڈ کے 8 زلزلے ہوں گے یا پھر 10 میگنیٹیوڈ کے 7 زلزلے، یہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے علاقے جہاں جدید ترین آلات نصب ہیں وہاں بھی کسی زلزلے سے صرف چند سیکنڈ قبل ہی ٹرینوں کی رفتار کم کرنے اور ایمرجنسی دروازے کھول دینے کیلئے بتایا جا سکتا ہے کہ زلزلہ آنے والا ہے۔

ہمارہ مقصد ہے کہ ہم فالٹ کے ان حصوں کا تعین کر لیں جو سرک گئے ہیں اور ان کی پیمائش کر سکیں، یہ معلومات ہمیں ایسا ماڈل بنانے میں مددگار ہوگی جس سے ہم اگلے مقام کے بارے میں جان پائیں۔پروفیسر جوڈتھ ہبارڈ — فوٹو: فائل
ہمارہ مقصد ہے کہ ہم فالٹ کے ان حصوں کا تعین کر لیں جو سرک گئے ہیں اور ان کی پیمائش کر سکیں، یہ معلومات ہمیں ایسا ماڈل بنانے میں مددگار ہوگی جس سے ہم اگلے مقام کے بارے میں جان پائیں۔پروفیسر جوڈتھ ہبارڈ — فوٹو: فائل


کیا کبھی سائنس یہ جان پائے گی؟

کارنیل ارتھ اینڈ ایٹماسفیرک سائنسز اسکول کی اسسٹنٹ پروفیسر جوڈتھ ہبارڈ کہتی ہیں کہ ہمارا مقصد ہے کہ ہم فالٹ کے ان حصوں کا تعین کر لیں جو سرک گئے ہیں اور ان کے سرکنے کی پیمائش کر سکیں کیوں کہ یہ معلومات ہمیں ایسا ماڈل بنانے میں مددگار ہوگی جس سے ہم اگلے مقام کے بارے میں جان پائیں گے کہ زیر زمین بننے والا دباؤ کسی دوسرے کمزور حصے کی طرف تو شفٹ نہیں ہو رہا۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک فالٹ کی ماڈلنگ کیلئے ممکنہ طویل مدتی اور بہت ساری کثیر الجہتی معلومات درکار ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے  اتنی ساری طویل المدتی اور کثیر الجہتی معلومات جمع کرنا بہت ہی زیادہ مشکل کام ہے۔ زیر زمین دباؤ کا دورانیہ بہت لمبا ہوتا ہے، یہ ایک دہائی بھی ہو سکتا ہے تو صدیوں پر  محیط بھی ہو سکتا ہے  لیکن یہ دباؤ رلیز ہونے کا دورانیہ صرف 30 سیکنڈ یا پھر 1 یا 2 منٹ ہوتا ہے۔ دونوں ٹائم اسکیل کو دیکھیں تو ان میں پایا جانے والا فرق بہت ہی بڑا ہے۔

واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ہیرالڈ ٹابن کہتے ہیں آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ گزشتہ ایک صدی کے دوران فالٹ میں کوئی بہت بڑا زلزلہ نہیں آیا۔ بطورجیولوجسٹ میں یہ کہوں گا کہ  یہ دورانیہ توکچھ بھی نہیں یہ تو بلکل نارمل سا دورانیہ ہے۔ یہ نہیں بتایا جا سکتا ہے کہ اب فالٹ میں زلزلہ آنے والا ہے  ہاں یہ ضرور بتایا جا سکتا ہے کہ حالات زلزلے کیلئے موزون ہو  رہے ہیں۔

مزید خبریں :