Time 13 فروری ، 2023
بلاگ

آزادی رائے کی لعنت

ترکی اور شام میں زلزلے نے تباہی مچا دی۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق بیس ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے، زخمیوں اور بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ 

جاں بحق ہونے والوں میں بچے، بوڑھے، مرد عورتیں سب شامل ہیں۔ جن شہروں میں زلزلے نے تباہی مچائی وہاں کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس کا کوئی عزیر رشتہ دار اس دنیا سے رخصت نہ ہوا ہو۔ پورے کے پورے گھر بھی اجڑ گئے۔ کسی کے ماں باپ، بہن بھائی چلے گئے تو کوئی اپنی اولاد کھو بیٹھا۔

ایک تصویر دنیا بھر میں وائرل ہوئی جس میں ایک زمیں بوس بلڈنگ کے ڈھیر پر بیٹھا والد ملبہ میں دبی اپنی جاں بحق بیٹی کا ہاتھ تھامے بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ اب تک ریسکیو اور ریلیف کا کام جاری ہے اور کوشش ہے کہ اگر کسی ملبہ میں کوئی زندہ ہے تو پہلے اُسے نکالا جائے۔ باقی ملبہ کو ہٹانے اور اس میں دبی لاشوں کو نکالنے کا کام نجانے کب تک جاری رہے گا۔ زلزلے سے ہزاروں عمارتیں زمین بوس ہو گئیں۔ یہ ایک انسانی المیہ ہے جس نے سب کو ہلا کے رکھ دیکھا۔

زلزلے سے متاثرہ علاقوں کے مناظر دیکھ کر سخت سے سخت دل بھی نرم پڑ گیا لیکن فرانس کے اسلام مخالف میگزین چارلی ایبڈو نے آزادی رائے کے نام پر سنگدلی کی نئی تاریخ رقم کر دی۔

میگزین نے ایک کارٹون بنایا جس میں ترکی میں زلزلے سے متاثرہ عمارتوں کے ملبہ کو دکھاتے ہوئے لکھا ’’فوجی ٹینک بھی بھیجنے کی ضرورت نہیں ‘‘۔ کوئی اسلام دشمنی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اتنا کیسے گر سکتا ہے کہ ایک انسانی المیہ جو ایک قدرتی آفت تھا اور جس میں ہزاروں افراد کی جان چلی گئی، لاکھوں افراد زخمی اور بے گھر ہوگئے، اُس پر وہ اس انداز میں خوشی کا اظہار کرے۔! یہ چارلی ایبڈو وہی بدنام زمانہ فرانس کا میگزین ہے جو آزادی رائے کے نام پر اسلام دشمنی کی حدیں آئے دن پار کرتا ہے، گستاخانہ خاکے بناتا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل دکھاکر خوشی محسوس کرتا ہے۔

اس میگزین کے ایسی ہی اسلام مخالف حرکات کے ردعمل میں چند سال پہلے اسکے دفتر پر ایک حملہ بھی ہوا تھا، جس میں اس میگزین سے تعلق رکھنے والے چند افراد ہلاک بھی ہوئے۔

اُس پر پورے مغرب نے چارلی ایبڈو کے حق میں آواز اُٹھائی اور اُس کا آزادی رائے کے نام پر دفاع کیا۔ لیکن اُس وقت عیسائیوں کے سب سے بڑے روحانی پیشوا پوپ فرانسیس نے یہ ضرور کہا تھا کہ اگر آپ کسی کی ماں کو گالی دو گے تو وہ آپ کے منہ پر گھونسا تو مارے گا۔

پوپ فرانسیس نے اُس وقت یہ بھی کہا تھا کہ آزادی اظہار رائے کی حدود و قیود ہونی چاہئیں۔ دوسروں کے مذہب کا مذاق اُڑانے کی بھی پوپ فرانسیس نے مخالفت کی تھی لیکن چارلی ایبڈو نہ اپنی اسلام دشمنی سے پیچھے ہٹا اور نہ ہی مغربی ممالک نے آزادی رائے کے نام پر اسلام مخالف گستاخانہ واقعات کو روکنے یا اُن کی حوصلہ شکنی کی کوشش کی۔

بلکہ حال ہی میں پہلے سویڈن اور پھر ڈنمارک میں قرآن کریم کی سرعام بے حرمتی کی گئی اور وہاں کی حکومتوں نے آزادی اظہار رائے کے بہانے، اس اسلام دشمنی کی اجازت دی۔ 

مسلمان ممالک کی طرف سے احتجاجی بیان تو دیے گئے لیکن افسوس کہ کوئی ایسا عملی اقدام نہیں اُٹھایا گیا جس سے آئے روز مغربی ممالک میں گستاخانہ اور اسلام مخالف واقعات کو روکا جاسکے۔

عمران خان نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران اس سلسلے میں یقیناً ایک سنجیدہ کوشش کی لیکن اس معاملہ پر تمام مسلمان ممالک اور اُن کے حکمرانوں کو مل کر ایک متفقہ حکمت عملی بنانا پڑے گی تاکہ آزادی رائے کے نام پر اسلام دشمنی سے مغرب کو روکا جائے۔ آزادی رائے اگر حدود و قیود میں ہو تو ٹھیک ورنہ جس آزادی رائے کا دفاع مغرب کرتا ہے وہ ایک لعنت ہے، وہ انتشار اور نفرت کا سبب ہے جسے روکا جانا پوری انسانیت کے حق میں اور امن کے لئے ضروری ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔