وہ سائنسدان جس نے والد کی موت کے بعد ٹائم مشین بنانے کا فیصلہ کیا

رونالڈ مالیٹ اپنی ڈیوائس رنگ لیزر کے ساتھ / فوٹو بشکریہ بلومبرگ
رونالڈ مالیٹ اپنی ڈیوائس رنگ لیزر کے ساتھ / فوٹو بشکریہ بلومبرگ

والدین کی موت کسی بھی فرد کی زندگی کا وہ سانحہ ہوتا ہے جو وہ کبھی بھول نہیں پاتا۔

ایسا ہی رونالڈ لارنس مالیٹ کے ساتھ ہوا جو 10 سال کی عمر میں والد سے محروم ہوگئے تھے اور اس سانحے نے انہیں ایسا سائنسدان بنا دیا جو ٹائم ٹریول کو یقینی بنانے کے لیے برسوں سے کام کر رہا ہے۔

رونالڈ مالیٹ 1945 میں امریکی ریاست پنسلوانیا میں پیدا ہوئے اور بچپن سے ہی وہ اپنے والد کے بہت قریب تھے۔

1955 میں جب رونالڈ مالیٹ کے والد بوئیڈ مالیٹ 33 سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک کے باعث اچانک انتقال کرگئے، اس واقعے نے رونالڈ مالیٹ کی زندگی کو بدل دیا۔

11 سال کی عمر میں رونالڈ مالیٹ نے ایچ جی ویلس کی کتاب دی ٹائم مشین کو پڑھا اور اس کے بعد انہوں نے اپنے والد کو ماضی میں جاکر بچانے کے لیے ٹائم مشین بنانے کا فیصلہ کیا۔

اپنے والد کے سامان کی مدد سے انہوں نے کتاب جیسی ٹائم مشین بھی تیار کرلی جو کارآمد تو نہیں تھی مگر وہ اپنے خیال سے پیچھے نہیں ہٹے۔

اسی خیال کو مدنظر رکھ کر انہوں نے تعلیمی شعبے کو منتخب کیا اور فزکس میں پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کی اور Connecticut یونیورسٹی کے پروفیسر بن گئے۔

5 دہائیوں سے زائد عرصے سے وہ ٹائم مشین کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔

اس عرصے میں انہوں نے ٹائم مشین بنانے کی کوششوں سے منہ نہیں موڑا اور ان کے تحقیقی کام کی بنیاد آئن اسٹائن کا عمومی اضافیت کا نظریہ ہے جس میں اسپیس اور ٹائم کو مدنظر رکھا گیا تھا۔

مگر تعلیمی کامیابیوں کے باوجود وہ عرصے تک عوامی سطح پر ٹائم ٹریول پر بات نہیں کرسکے۔

1990 کی دہائی کے وسط میں جب مختلف حلقوں کی جانب سے ٹائم ٹریول کے امکانات پر بات ہونے لگی تو رونالڈ مالیٹ کو محسوس ہوا کہ اب وہ اپنے کام پر بات کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کشش ثقل وقت پر اثر انداز ہوتا ہے اور روشنی کشش ثقل بنا سکتی ہے تو روشنی وقت پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے اور اسے بدل سکتی ہے۔

5 دہائیوں سے زائد عرصے سے وہ اس پر کام کر رہے ہیں / فوٹو بشکریہ بلومبرگ
5 دہائیوں سے زائد عرصے سے وہ اس پر کام کر رہے ہیں / فوٹو بشکریہ بلومبرگ

ان کے خیال میں روٹیٹنگ بلیک ہولز کشش ثقل کا ایک ایسا میدان تیار کرتے ہیں جس سے ٹائم لوپ بنتا ہے اور اس سے آپ ماضی میں جا سکتے ہیں۔

عام بلیک ہول کے برعکس روٹیٹنگ بلیک ہول یا وارم ہول ایک سرنگ کی طرح ہوتے ہیں جن کے 2 دہانے ہوتے ہیں (فی الحال سائنسدانوں کا تو یہی ماننا ہے)۔

رونالڈ مالیٹ نے ایک ڈیوائس رنگ لیزر تیار کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس کی لائٹ کے ذریعے وقت پر اثر انداز ہونا ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئن اسٹائن کے نظریے کے مطابق اسپیس اور ٹائم ایک دوسرے سے جڑے ہیں اور اسی وجہ سے اسے اسپیس ٹائم کہا جاتا ہے، تو اگر بلیک ہول گھومتا ہے تو بنیادی طور پر وہ وقت میں گھوم رہا ہے۔

چونکہ ہماری کہکشاں میں بلیک ہولز کی تعداد بہت کم ہے تو رونالڈ مالیٹ کے خیال میں رنگ لیزر کے ذریعے وہ اس کا متبادل دریافت کر سکتے ہیں۔

مگر اس طرح کی ٹائم مشین کا حجم بھی بہت بڑا ہوگا اور وہ خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ابھی وہ نہیں جانتے کہ یہ ٹائم مشین کتنی بڑی ہوگی، بس یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ مشین بڑی ہوگی۔

اس کے لیے بہت زیادہ سرمائے کی بھی ضرورت ہے جس کے حصول کے بعد بھی اگر رونالڈ مالیٹ اپنے نظریے کو عملی شکل دے دیں تو وہ ماضی میں زیادہ پیچھے سفر نہیں کر سکیں گے۔

ان کے اپنے تحقیقی کام اور نظریے کے مطابق ایسا کوئی امکان نہیں کہ وہ 1955 میں واپس جاسکیں۔

تو یہ جاننے کے بعد وہ کیا محسوس کرتے ہیں؟ ان کے اپنے الفاظ میں 'یہ میرے لیے افسوسناک ضرور ہے مگر المیہ نہیں، کیونکہ مجھے وہ چھوٹا بچہ یاد ہے جو ٹائم مشین کی تیاری کا خواب دیکھتا تھا، اب میں نے یہ جان لیا ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے'۔

انہوں نے کہا کہ اس ٹائم مشین سے ہمارے سیارے کی زندگی کے حوالے سے متعدد مواقع چھپے ہیں، جیسے کب کوئی زلزلہ یا سونامی آنے والا ہے یا کووڈ کی وبا کے لیے ویکسین اور ادویات کونسی ہیں، یہ مستقبل سے ماضی میں جاکر بتانا ممکن ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے امکانات کا دروازہ کھول دیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ میرے والد کو اس پر فخر ہوگا'۔