Time 27 مارچ ، 2023
بلاگ

بلے کو ڈنڈے سے لڑانے والا خان

عمران خان اپنے فیصلے کرتے وقت سوچتے، دوسروں سے مشاورت کرتے، غصہ اور جلدبازی کی بجائے صورتحال کا جائزہ لے کر آگے بڑھتے تو آج کی صورتحال کا اُن کو سامنا نہ کرنا پڑتا۔

اب تو وہ اپنے آپ کو بند گلی میں کھڑا محسوس کر رہے ہیں اور کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ آگے کیسے بڑھا جائے۔ سب سے تعلق خراب کر لئے اور اب اگر کوئی امید ہے تو وہ صرف اور صرف عدلیہ سے۔

لیکن جب کوئی بھی راضی نہیں، نہ وفاقی و صوبائی حکومتیں، نہ عمران مخالف سیاسی جماعتیں، نہ ہی فوج اور الیکشن کمیشن تو پھر عدلیہ چاہے بھی تو الیکشن کیسے ممکن ہوں گے؟ ایک نیا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

عمران خان نے سب سے بڑی غلطی جو کی وہ اُن کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی ہے۔

اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد اُنہوں نے اپنے سیاسی مخالفوں کی بجائے اسٹیبلشمنٹ سے کھلی جنگ شروع کر دی۔ امید تھی کہ جنرل باجوہ کے بعد عمران خان نئی اسٹیبلشمنٹ پر وار نہیں کریں گے اور اپنی سیاست کا رخ اپنے مخالفوں کی طرف موڑ دیں گے لیکن اُن کا کہنا ہے کہ جو بھی تحریک انصاف اور اُن کے خلاف ہو رہا ہے اور جو بھی وفاقی و صوبائی حکومتیں کر رہی ہیں اُس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے۔

اوپر سے وہ اسٹیبلشمنٹ کی تعریف بھی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ تو صرف ایک فرد کا نام ہے یعنی آرمی چیف اور یہ بات اُنہوں نے حال ہی میں ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں بھی کہی۔

یعنی وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اُن کی لڑائی اپنے سیاسی مخالفین سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے اُن کی حکومت رخصت ہوئی اُنہوں نے ایک ایسا بیانیہ بنایا کہ کبھی لگا ہی نہیں کہ عمران خان کا مقابلہ اپنے سیاسی مخالفین سے ہے۔ بلکہ اُنہوں نے بلے کو ڈنڈے سے لڑا دیا۔

عوامی مقبولیت میں عمران خان کا کوئی مقابلہ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف فوری الیکشن چاہتی ہے جبکہ پی ڈی ایم الیکشن سے بھاگ رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں تمام تر مقبولیت کے باوجود اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی عمران خان کو کیسے فائدہ دے سکتی ہے؟

عمران خان کو اس حقیقت کا پتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کسی سیاسی جماعت کو فائدہ نہیں دے سکتی، اسی لئے وہ اس کوشش میں بھی ہیں کہ کسی طرح بلے اور ڈنڈے کی صلح ہو جائے لیکن کبھی کسی انٹرویو میں تو کبھی کسی تقریر میں وہ کوئی ایسی بات کر ہی دیتے ہیں کہ حالات سدھرنے کی بجائے مزید بگڑ جاتے ہیں۔ معلوم نہیں کون اُن کے کان بھرتا ہے اور وہ بغیر سوچے سمجھے آئے دن اپنے قتل کی نئی سازش کا اعلان کرتے ہیں اور ہر سازش میں کسی نہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ کو شامل کر دیتے ہیں۔

ایسے میں تحریک انصاف کے وہ رہنما جو کوشش میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تلخی کو ختم کیا جائے، وہ معاملات کو سنوارنے کے لئے کچھ بھی کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ سیاسی فیصلے غصے اور جلدبازی میں نہیں کئے جاتے کیوں کہ اصل مقصد سیاسی اہداف کا حصول ہوتا ہے۔

سب سمجھاتے رہے لیکن عمران خان نے جلد بازی میں پہلے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیے اور اب پچھتا رہے ہیں کہ کیوں اپنے ہاتھ کاٹ لئے۔ اسی طرح سب نے سمجھایا کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اپنی حکومتیں مت ختم کریں، ان صوبوں کی اسمبلیوں کو مت تحلیل کریں، اس کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوگا۔ لیکن عمران خان نے کسی کی نہ سنی اور اب اُنہیں سمجھ آ رہی ہے کہ بڑی غلطی ہوگئی۔

وہ تو سمجھتے تھے کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کریں گے تو پورے ملک میں انتخابات کاراستہ نکلے گا لیکن اب اُنہیں پتا چلا کہ الیکشن تو پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بھی نہیں ہو رہے۔ اوپر سے نگراں حکومتیں خصوصاً پنجاب کی حکومت تو تحریک انصاف کو سانس لینے کا موقع ہی نہیں دے رہی اور ایسے لگ رہا ہے کہ وہ عمران خان کی سب سے بڑی سیاسی مخالف ہے۔

پہلے عمران خان اپنے سیاسی مخالفین سے بات کرنے کو تیار نہ تھے لیکن اب تحریک انصاف بات چیت کے لئے ترس رہی ہے لیکن اب حکمراں اتحاد، خان سے بات کرنے کو تیار نہیں۔

عمران خان اور تحریک انصاف بڑی مشکل میں پھنس گئے۔ اس مشکل سے کیسے نکلیں گے اس کا کسی کو کوئی اندازہ نہیں۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔