03 اپریل ، 2023
اسلام آباد: پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں الیکشن التوا کیس میں اٹارنی جنرل پاکستان کی جانب سے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہےکہ چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ مقدمہ نہ سنے۔
اٹارنی جنرل کی 7 صفحات پر مشتمل متفرق درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن ازخودنوٹس کیس نہ سننے والےججزپر مشتمل عدالتی بینچ بنایا جائے۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے التوا سے متعلق کیس کی سماعت کر رہا ہے، عدالت نے آج سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری خزانہ کو طلب کر رکھا ہے۔
سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ بہت سے مراحل سے گزر کر بنا ہے، معطل کیے گئے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر نے اپنی معطلی کے خلاف سروسز ٹریبونل کے فیصلے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا، سپریم کورٹ کے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 16 فروری کو پنجاب، کے پی میں انتخابات کی تاریخ نہ دینے کا معاملہ ازخود نوٹس کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو بھجوادیا، چیف جسٹس نے 6 دن بعد 22 فروری کو ازخود نوٹس لیا اور اپنی سربراہی میں 9 رکنی بینچ بنایا جو جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تھا۔
23 فروری کو ازخود نوٹس پر پہلی سماعت ہوئی، 27 فروری کو دوسری سماعت سے پہلے بینچ اس وقت ٹوٹا جب دو ججز جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے ازخود نوٹس پر اعتراض کرتے ہوئے اپنا فیصلہ دے دیا اور بینچ سے علیحدہ ہوگئے۔
جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے بھی حکومتی اتحاد کے اعتراضات پر کیس سننے سے معذرت کرلی۔
اس کے بعد 27 اور 28 فروری کو چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس سنا اور یکم مارچ کو تین دو کے تناسب سے فیصلہ سنایا، جس میں الیکشن کمیشن کو صدر مملکت اور گورنر کے پی سے انتخابات کی تاریخ لینےکا حکم دیا گیا۔
الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کو انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کر دیے تو پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی۔
چیف جسٹس نے 27 مارچ کو 5 رکنی بینچ کے سامنےکیس مقرر کیا جس میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال مندوخیل شامل تھے۔
اسی دن سماعت کے بعد جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے یکم مارچ کے ازخود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے اسے سپریم کورٹ کا تین کے مقابلے میں چار ججز کا اکثریتی فیصلہ قرار دیا، جسٹس جمال مندوخیل اور حکومت کی جانب سے حالیہ کیس میں متعدد بار یکم مارچ کے فیصلے کے تناسب کا آرڈر کرنے کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔
موجودہ پانچ رکنی بینچ تب ٹوٹاجب 30 مارچ کو جسٹس امین الدین خان نے کیس سننے سے معذرت کرلی، 31 مارچ کو چیف جسٹس کی سربراہی میں بقیہ چار رکنی بینچ سماعت کے لیے آیا تو جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی کیس سننے سے معذرت کی اور یوں ایک ہی کیس کی سماعت کرنے والا بینچ دوسری بار بھی ٹوٹ گیا۔
بینچ ٹوٹنے کے بعد 31 مارچ کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی اور فل کورٹ بنانے کی حکومتی استدعا مسترد کر دی اور اب اسی کیس کی باقاعدہ چوتھی سماعت آج ہو رہی ہے۔