03 اپریل ، 2023
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ الیکشن کے لیے صرف فوج کی بات نہیں کر رہے، ائیرفورس اور نیوی کا بھی بتایا جائے۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کی تاریخ سے متعلق سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے انتخابات کے دوران سکیورٹی فورسز کی تعیناتی سے متعلق ریمارکس دیے کہ ہم صرف فوج کی بات نہیں کر رہے، مسلح افواج میں ائیر فورس، نیوی بھی شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہماری فوج حساس جگہوں پر تعینات ہے تو ہمیں ان دو کے بارے میں بھی بتایا جائے، آرمڈ فورسز میں نیوی اور فضائیہ بھی شامل ہیں، اگر پاک آرمی کی نفری مصروف ہے تو دیگر سروسز سے اہلکار لیے جا سکتے ہیں، نیوی سمیت دیگر فورسز سکیورٹی کے لیے لی جا سکتی ہیں جو حالت جنگ میں نہ ہوں۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری دفاع سے پوچھا کہ ویسے بتا دیں کہ الیکشن کے لیے کتنی سکیورٹی چاہیے؟ جو کچھ حساس چیزیں ہیں ان کو ان چیمبر سن لیں گے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے سیکرٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ حمود الزمان نے استفسار کیا کیا پنجاب میں سکیورٹی صورتحال سنگین ہے؟ جس پر سیکرٹری دفاع نے کہا کہ پنجاب میں سکیورٹی سے متعلق ان چیمبر بریفنگ دیں گے، ہم نے عدالت میں کچھ بولا تو دشمن معلومات لیک کر سکتا ہے، کچھ حساس معلومات ہیں جو چیمبر میں بتائیں گے۔
وکیل تحریک انصاف علی ظفر نے کہا کہ میری رائے میں ابھی سکیورٹی کا معاملہ چھوڑ دینا چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ انتحابات کے لیے سکیورٹی کون دے گا؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کے روز دیگر فورسز سے سکیورٹی لی جا سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ حکومت کو یہ اعتماد کیسے ہے کہ 8 اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہہ چکا کہ سکیورٹی اور فنڈ ملیں تو الیکشن کے لیے تیار ہیں، ریٹائرڈ آرمی کے جوان بھی سکیورٹی کے لیے لیے جا سکتے۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری دفاع سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کے پاس ریٹائرڈ جوان بلانے کا کوئی طریقہ کار ہے؟ جس پر سیکرٹری دفاع نے کہا کہ ریٹائرڈ آرمی جوان ریزرو فورس ہوتی ہے جنہیں مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری دفاع صاحب کیا آپ سربمہر کچھ فائلیں لائے ہیں؟ جس پر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمود الزمان خان نے بتایا کہ ابھی نہیں لایا، عدالت کو پیش کردوں گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں سربمہر فائلیں دے دیں، ہم جائزہ لےکر واپس کر دیں گے، سیکرٹری دفاع کو اگلی سماعت پر آنے کی ضرورت نہیں، کچھ سوالات ہمارے ذہن میں آئے تو کھلی عدالت میں پوچھ لیں گے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہم اپنی افواج کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے، حساس آپریشن ہوتے ہیں، ہم کوئی معلومات لیک نہیں ہونے دیں گے۔
سیکرٹری دفاع نے کہا کہ تفصیلی بریفنگ عدالت کو ان چیمبر دیں گے، تفصیلی رپورٹ بھی عدالت کو چیمبر میں پیش کریں گے۔
وکیل تحریک انصاف علی ظفر نے کہا کہ موجودہ حالات میں کسی قسم کی سنگینی نہیں ہے، الیکشن کے لیے زیادہ سکیورٹی کی ضرورت نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن میں ڈیوٹی کے لیے جنگجو فوجی نہیں چاہئیں، ریٹائرڈ آرمی جوان بھی سکیورٹی دے سکتے ہیں، پیرا ملٹری فورسز بھی سکیورٹی دے سکتی ہیں جو وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ ملک میں جمعے کے اجتماع میں بھی سکیورٹی دی جاتی ہے، حالات اتنے خراب نہیں ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کافی عرصے سے ملک میں حالات خراب ہیں، جھنگ کبھی حساس ہوتا تھا، اب نہیں ہے، جنوبی پنجاب اورکچے کے علاقے بھی حساس ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیکرٹری دفاع حساس معلومات شیئر نہ کریں، زبانی معلومات کے بجائے تحریری جواب دے دیں، جس پر سیکرٹری دفاع نے کل تک جواب جمع کرانے کی مہلت مانگ لی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چندگھنٹوں بعد یاکل صبح تک رپورٹ دےدیں۔