15 اپریل ، 2023
مسلم لیگ(ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نومبر 2019 کو علالت کی وجہ سے بزدار حکومت نے پہلے جیل سے اسپتال منتقل کیا اور پھر عدالتی حکم اور ضمانت کے تحت وہ علاج کے لئے لندن چلے گئے۔
تب عمران خان صاحب کی حکومت اور پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد ہمیں بتاتی رہیں کہ واقعی میاں نواز شریف کی زندگی خطرے میں ہے ۔ ہماری چونکہ اس وقت میاں نواز شریف تک کوئی رسائی نہیں تھی اس لئے عمران خان کی حکومت کی اطلاعات پر یقین کرنا پڑ رہا تھا اور ان اطلاعات کی بنیاد پر ہم جیسوں نے بھی ان کے حق میں صدا بلند کی لیکن بعد میں عمران خان صاحب اور ان کے ہمنوا بتاتے رہے کہ انہوں نے بیماری کا ڈرامہ کیا تھا۔
حقیقت تو اللّٰہ جانتا ہے لیکن بہ ہر حال میاں صاحب لندن چلے گئے ۔ بعد میں کورونا کا مرحلہ آیا۔ اب الحمدللّٰہ وہ بھی گزر گیا ہے۔ حکومت بھی تبدیل ہوگئی ہے اور فوجی قیادت بھی تبدیل ہوگئی ہے۔
یوں سیاست کا تقاضا تو یہ تھا کہ میاں نواز شریف حکومت کی تبدیلی کے فوراََ بعد پاکستان آجاتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس دوران جب بھی ان کی پارٹی کے لوگوں سے سوال کیا جاتا تو وہ کہتے کہ جب ڈاکٹر اجازت دیں گے تو وہ واپس آئیں گے۔
عمران خان کی حکومت کے گند کا ٹوکرا اپنے سر لینے کے بعد اچانک حالات نے پلٹا کھایا اور پاکستان کی سب سے مقبول جماعت مسلم لیگ(ن) کی مقبولیت میں کمی آنے لگی۔
دوسری طرف عمران خان، جن کی بدترین حکومت کی وجہ سے ان کی مقبولیت زمین بوس ہوگئی تھی، اوپر جانے لگی ۔ تباہ شدہ معیشت، اس کے نتیجے میں مشکل معاشی فیصلے بھی موثر عامل تھے جبکہ عمران خان کی میکاولین سیاست نے بھی اہم کردار ادا کیا لیکن حقیقت میں ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اقتدار ملتے ہی مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے سیاست بالکل ترک کر دی۔
عمران خان بھرپور اور شاطرانہ سیاست کرتے رہے اور ادھر یہ لوگ عہدوں کی بندربانٹ میں لگے رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زرداری اور مولانا نے بھی مسلم لیگ(ن) کے ساتھ بڑا ہاتھ کیا۔ انہوں نے فائدے والی وزارتیں اپنے لئے ہتھیا لیں جبکہ معیشت، داخلہ اور انفارمیشن جیسی وزارتیں جن میں بدنامی زیادہ ہوتی ہے، مسلم لیگ (ن) کے گلے میں ڈال دیں۔ چونکہ وزیراعظم کی صورت میں شہباز شریف کا چہرہ سامنے ہے اس لئے مہنگائی وغیرہ کا سارا ملبہ مسلم لیگ(ن) کے اوپر گررہا ہے۔ اسی طرح میڈیا میں صفائیاں صرف نون لیگ کو دینی پڑرہی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اور جے یوآئی صرف حکمرانی کررہی ہیں۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ حکومت کی میڈیا پالیسی اور پروپیگنڈے کی صلاحیت ناقص ترین جبکہ پی ٹی آئی کی بے مثال ہے۔
جب احساس ہوا کہ پارٹی پوزیشن خراب ہورہی ہے تو مریم نواز صاحبہ کو میدان میں اتارا گیا۔ یقینا وہ کراؤڈ پلر ہیں ۔ بہادر ہیں اور اچھا بولتی ہیں لیکن ظاہر ہے کہ میاں نواز شریف کا متبادل تو نہیں بن سکتیں۔ خصوصاً مسلم لیگ کے سینئر رہنمائوں سے کام لینے میں ان کو مشکل پیش آرہی ہیں۔
مثلاً اس وقت خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔ صوبائی صدر امیر مقام اور دیگر تنظیمیں ایک طرف ہیں جبکہ سابق وزیراعلیٰ و گورنر سردار مہتاب احمد خان، سابق گورنر اقبال ظفر جھگڑا، عبدالسبحان اور ارباب خضرحیات وغیرہ نے ان کے خلاف علم بغاوت بلند کر رکھا ہے۔
اب ظاہر ہے کہ یہ سب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ مریم نواز صاحبہ جاکر ان کو ایک میز پر نہیں بٹھاسکتیں۔
دوسری طرف میاں شہباز شریف اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں لیکن وہ اتحادیوں کی چالوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور نہ مقبول سیاست کرنا ان کا مزاج ہے۔
اس تناظر میں پارٹی کی بقا کا واحد راستہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف واپس آجائیں۔ یقینا ًواپس آکر انہیں جیل جانا پڑے گا لیکن میں حیران اس بات پر ہوں کہ سب سے مشکل فیصلہ تو میاں صاحب اور مریم نواز نے اس وقت کیا تھا کہ جب وہ کلثوم نواز مرحومہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر گرفتاری دینے پاکستان آئے تھے۔
میں اب بھی جب اس فیصلے کو ذہن میں تازہ کرتا ہوں تو ایک لمحے کے لئے لرز جاتا ہوں کیونکہ جب خود میری ماں کی حالت نازک تھی تو جتنے روز وہ اسپتال میں تھیں، میں وہاں سے ہل بھی نہیں سکتا تھا۔ پھر عمران خان دور کی جیل بھی صعوبتوں سے بھرپور تھی اور مریم نواز صاحبہ کے کمرے میں خفیہ کیمرے نصب کرنے تک ہر گندا حربہ استعمال کیا جارہا تھا لیکن اب تو میاں شہباز شریف کی حکومت ہے اور بڑے میاں صاحب کی جیل میں اس طرح کی کوئی سختی نہیں ہوگی۔
اپنے بھائی کی حکومت میں جیل جائیں گے تو میاں صاحب کی طرف سے عوام کو دو پیغامات دے جائیں گے۔ ایک یہ کہ عمران خان کے برعکس وہ قانون کی بالادستی پر کتنا یقین رکھتے ہیں اور دوسرا یہ کہ عمران خان کی طرح وہ جیل جانے سے نہیں گھبراتے اور اپنے بھائی کی حکومت میں بھی جیل جاسکتے ہیں۔
سیاسی فائدہ نقصان اپنی جگہ لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ عمرے کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب تک کا سفر کرنے اور پھر عمرے کی مشقت برداشت کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد یہ پیغام باہر گیا ہے کہ اب پاکستان واپس آنے میں میاں صاحب کی صحت کا معاملہ حائل نہیں۔ وہ اگر سعودی عرب تک کا سفر کرسکتے ہیں اور کئی دن تک وہاں قیام کرسکتے ہیں تو اب پاکستان آنے اور یہاں مقیم رہنے میں بھی صحت کے لحاظ سے کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے۔
اب مسلم لیگ(ن) کے ترجمان لاکھ بھی چاہیں تو میاں صاحب کے نہ آنے کے لئے بیماری کا عذر بطور دلیل پیش نہیں کرسکتے جبکہ اب پی ٹی آئی والے بھی بھرپور طریقے سے یہ پروپیگنڈا کریں گے کہ میاں صاحب قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے بیماری کا بہانہ کرکے لندن میں بیٹھے ہیں۔
اس لئے میاں صاحب! اب جیسے بھی ہو آپ کو آنا پڑے گا۔ جی ہاں مریم نواز صاحبہ کے ساتھ سیدھا واپس پاکستان آنا پڑے گا نہیں تو رہی سہی مسلم لیگ (ن) بھی نہیں بچے گی۔ جو جو میٹھا میٹھا ہوگا وہ زرداری صاحب اور مولانا صاحب کے حصے میں آجائے گا اور کڑوا صرف آپ کی پارٹی کے حصے میں۔ وماعلینا الالبلاغ
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔