پیپلزپارٹی بمقابلہ نون لیگ

لوگ کچھ بھی کہیں لیکن عمران خان کے اگلے انتخابات میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے راستے بند ہوگئے ہیں۔وہ زیادہ سے زیادہ مستقبل کے الطاف حسین بن سکتے ہیں لیکن الطاف حسین پھر بھی آزاد ہیں اور اپنی بات سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے پہنچا سکتے ہیں لیکن یہ بات اب اظہرمن الشمس ہے کہ جب الیکشن ہوں گے تو عمران خان مع بشریٰ بی بی جیل میں ہوں گے اور کسی نہ کسی کیس میں سزا پانے کے بعد نااہل ہوچکے ہوں گے ۔

وہ سینکڑوں کی بات کرتے ہیں لیکن حقیقتاً ان کے خلاف درجنوں کیسز ہیں اور ان میں نصف درجن ایسے ہیں کہ اگر’’ عمرانداروں ‘‘کی سہولت کاری نہ ہو تو ان کے ملزم سے مجرم بننے میں ایک گھنٹہ نہیں لگے گا۔ عمران خان ذاتی لحاظ سے جتنا بھی پاپولر یا مظلوم بن جائے لیکن سیاسی جماعتوں میں اصل ریڑھ کی ہڈی سیکنڈ کیڈر کے لیڈرز یا پھر ایم این اے اور ایم پی اے کے امیدوار ہوتے ہیں ۔

 یہی لوگ لیڈر اور کارکنوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ مثلاً اگر میاں نواز شریف یا مریم نواز صاحبہ پنڈی میں نہایت پاپولر بھی ہوں تو یہاں کے ورکرز کو وہ خود جانتے ہیں اورنہ ان سے ان کا رابطہ ہوتا ہے۔ ان کی غمی خوشی اور تھانہ کچہری کے معاملات، مقامی رہنمائوں کا درد سر ہوتا ہے۔ مثلاً اگر پنڈی میں حنیف عباسی لاتعلق ہوجائے۔ وہ نہ کارکنوں کو نکالے اور نہ ووٹرز کو تو نواز شریف اور مریم نواز کی پاپولرٹی کو وہ جلسے جلوس کیلئے استعمال کرسکتے ہیں اور نہ انہیں پولنگ اسٹیشن تک لاسکتے ہیں اور یہ نظارہ ہم پنجاب کے ضمنی الیکشن کے دوران کرچکے ہیں۔

 دوسری مثال الطاف حسین کی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایم کیوایم پی ٹی آئی کی نسبت کئی گنا زیادہ نظریاتی تنظیم تھی۔ ایم کیوایم کے ہزاروں لوگوں کا خون بہایا گیا تھا اور ہزاروں مخالفین کا انہوں نے خون بہایا۔تب اسٹیبلشمنٹ صرف اس میں کامیاب ہوئی کہ انہوں نے الطاف حسین سے ان کے سیکنڈ ٹیئر کو کاٹ دیا ۔ 

جب ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے دوسرے درجے کے یہ لیڈر ان کے ساتھ نہ رہے اور الگ ایم کیوایم پاکستان بنائی تو الطاف حسین کی نوجوانوں میں مقبولیت ان کے کسی کام نہ آئی۔ کسی زمانے میں ان کے اعلان سے پورا کراچی بند ہوجاتا تھا لیکن اب ان کی دعوت پر دس بندے نہیں نکل سکتے ۔ اب یہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہورہا ہے جبکہ الطاف حسین کے برعکس وہ انتخابات کے وقت جیل میں قید اورشاید سزا یافتہ ہوں گے۔

 پی ٹی آئی کے جتنے سیکنڈ یا تھرڈ رینکس کے لیڈرز ہیں ان پر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کے خاص گماشتوں نے پاکستانی فوج کے ساتھ وہ کچھ کیا جو ہندوستان بھی 75 سال میں نہ کرسکا ، اس لئے انہیں اب اسی نظر سے دیکھا جائے گا جس طرح دشمنوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا عمران خان کو۔ یوں پرویز خٹک ہویا اسد قیصر سب پر یہ بات واضح کی جارہی ہے کہ اس بات کی تو گنجائش ہے کہ وہ ایک کی بجائے دوسری پارٹی میں جائیں لیکن عمران خان اور ان کی پارٹی کے ساتھ رہنے کی صورت میں ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو دشمن کا ساتھ دینے والے کے ساتھ کیا جاتاہے۔

 اب ظاہر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے سہارے آنے والے اور اسکے سہارے سیاست کرنے والے لوگ کسی صورت عمران خان کے ساتھ کھڑے نہیں رہ سکیں گے۔ بلکہ شاید اب صرف سیاستدانوں نہیں بلکہ ’’عمرانداروں‘‘ کے ساتھ بھی یہی رویہ اپنایا جائے گا۔ دوسری طرف عمران خان نے آرمی چیف سے ملنے کیلئے منتوں کی انتہا کردی اور ہر طرح کے سفارشی تلاش کرکے ان کی خدمت میں بھجوا دئیے ۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ ملاقات کیلئے بھی تمام جتن کئے لیکن وہاں سے ایک ہی جواب ملتا ہے کہ اب یہاں یہ سلوک دستیاب نہیں اور وزیراعظم ہائوس سے رجوع کریں۔

اب لوگ کچھ بھی سمجھیں لیکن مجھے اور حکومت میں شامل جماعتوں کو یقین ہے کہ اگلے الیکشن کی حد تک پی ٹی آئی کا خطرہ ٹل گیا ہے چنانچہ حکومت میں شامل جماعتیں اپنی روایتی سیاست کی طرف لوٹ رہی ہیں۔ یوں تو پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں سرد جنگ پہلے دن سےجاری تھی لیکن اب وہ گرم ہوتی جارہی ہے کیونکہ دونوں جماعتوں کو یقین ہے کہ اگلے الیکشن میں مقابلہ ان دونوں کا ہوناہے ۔

 اب تک صور تحال یہ ہے کہ سندھ مکمل طور پرپیپلز پارٹی کے سپرد ہے ۔ پنجاب نون لیگ کے سپرد ہے ۔ خیبر پختونخوا عملاً جے یو آئی کو ٹھیکے پر دیا گیا ہے۔ جبکہ بلوچستان باپ پارٹی اور باپ کے باپ کے سپرد ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے طرز حکمرانی کی بدحالی سے تو اک دنیا واقف ہے ۔

 پنجاب میں صورت حال بھی زیادہ تسلی بخش نہیں لیکن خیبر پختونخوا میں تو ابتری کی آخری انتہائیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مسلم لیگ کے صوبائی رہنما اور نواز شریف کے مخلص ساتھی اختیار ولی نے بالکل بجا کہا کہ پختونخوا میں عملاً گورنر راج نافذ ہے ۔ وزیراعلیٰ انتہائی تعلیم یافتہ اور حد درجہ شریف انسان ہیں لیکن عملاً پولیس اور بیوروکریسی کی تعیناتیاں گورنر، اکرم خان درانی اور مولانا لطف الرحمان کی مرضی سے ہورہی ہیں جبکہ اب تو ان میں بھی اختلافات کی خبریں آرہی ہیں۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جو نگران حکومت بنائی ہے وہ غیرجانبدار ٹیکنوکریٹس پر مشتمل نہیں بلکہ ان میں پارٹی لیڈروں کے اے ٹی ایمز یا پھر مختلف پارٹیوں کے نمائندے وزیر بنائے گئے ہیں ۔ یوں وہ وزیر وزیراعلیٰ سے لائن لینے کی بجائے مولانا، زرداری، ایمل ولی اور شہباز شریف وغیرہ سے لائن لیتے ہیں۔ درمیان میں وزیراعلیٰ حیران اور پریشان بیٹھے ہیں جبکہ پولیس اور بیوروکریسی کا جینا حرام ہے۔ کرپشن کا بازار ایسا گرم ہے کہ لوگ پی ٹی آئی کے دور کو بھول گئے ہیں اور حیرت انگیز طور پر جے یو آئی، پیپلز پارٹی سے بھی آگے ہے۔

صوبے کو نہ صرف جائز مالیاتی حق نہیں مل رہا بلکہ جے یو آئی نے ،مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سازش کرکے ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کیلئے مختص فنڈ کو مرکز کے پاس کر دیا جو ایم این ایز کے ہاتھوں خرچ ہونگے ۔ یہ عمل نہ صرف صوبائی خود مختاری کے خلاف ہے بلکہ فاٹا مرجرکو ریورس کرنے کی طرف پہلا قدم ہے لیکن حکومت کے بچائو کی وجہ سے شہباز شریف کو مولانا کے مطالبات کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔ مولانا کے یہ ناز نخرے اسلئے اٹھائے جاتے ہیں کہ اگلے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کا اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ مولانا کے ساتھ ہوگی جبکہ دوسری طرف زرداری کے ساتھ اے این پی کا اتحاد ہوگا ۔

فیصلہ کن رول استحکام پاکستان پارٹی کا ہوگا اور دیکھنا یہ ہے کہ وہ نون لیگ کا ساتھ دیتی ہے یا پیپلز پارٹی کا؟۔ لیکن بہ ہر حال اب سیاست نیا رخ اختیار کرے گی۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی ظاہری یاری اب سرد جنگ سے گرم جنگ میں تبدیل ہو گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔