شہباز شریف بمقابلہ عمران خان

یہ 2017کی بات ہے ،جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے ، میں کچھ جاپانی سرمایہ کارو ں کے ساتھ لاہور میں تھا، یہ جاپانی سرمایہ کار انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے تھے جنکی لاہور میں کچھ نجی کمپنیوں سے ملاقاتیں ہوچکی تھیں۔

جبکہ کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ سرمایہ کاری کے حتمی فیصلے سے قبل ایک دفعہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے جاپانی سرمایہ کاروں کی ملاقات ہوجائے تو نہ صرف جاپانی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا بلکہ انھیں وزیر اعلیٰ کی جانب سے سرکاری سہولتیں مل سکتی ہیں،لہٰذا وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی کوششیں شروع ہوئیں اور شدید مصروفیات کے باوجود شہباز شریف نے اگلی رات دس بجے بلا لیا ،جاپانی سرمایہ کارپریشان تھے کہ رات دس بجے ہونیوالی ملاقات کا کوئی مثبت نتیجہ بھی نکل سکے گا یا نہیں۔ 

بہرحال اگلے روز وفد وزیر اعلیٰ ہائوس پہنچ گیا میںبھی ساتھ تھا اور ہم سب یہ دیکھ کر حیران تھے کہ میاں شہباز شریف نے جاپانی سرمایہ کاروں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ملاقات کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے رات دس بجے کی اس میٹنگ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر اور آئی ٹی بورڈ کے سربراہ سمیت آئی ٹی کی اہم شخصیات کو بھی مدعوکر رکھاتھا تاکہ جاپانی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہو، ایک گھنٹے جاری رہنے والی اس ملاقات کے بعد جاپانی کمپنی نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا اورلاہور اور کراچی میں کاروبار کا آغاز بھی کیا ،جو لوگ میاں شہباز شریف سے واقف ہیں انھیں معلوم ہے کہ شہباز شریف ایک پریکٹیکل انسان ہیں اور وقت کے ضیاع کے بجائے مسئلے کا حل اور نتائج چاہتے ہیں ۔

یہاں سابق وزیر اعظم عمران خان سے ہونے والی ملاقات کا تجربہ بیان کرنابھی بہت ضروری ہے ، سنگاپور میں مقیم مرچنٹ نیوی کے شعبے کی معروف کاروباری شخصیت جو سابق وزیر اعظم عمران خان کی ایمانداری سے بہت متاثر تھی ، وہ عمران خان سے مل کر انھیں ان کے چیریٹی منصوبوں کیلئے ایک لاکھ ڈالر کی امداد دینا چاہتی تھی ،جس کیلئے ان صاحب نے تحریک انصاف کے ایک رکن قومی اسمبلی کے ذریعے عمران خان سے ملاقات طے ہوئی ، وہ سرمایہ کار وزیر اعظم ہائوس پہنچے میں بھی وفد کا حصہ تھا ، ملاقات کے کمرے سے پہلے انتظارگاہ میں چائے پیش کی گئی کچھ ہی دیر بعد عمران خان کے سیکریٹری کمرے میں داخل ہوئے اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ پرائم منسٹر کو اپناصحافتی تعارف نہ کرایئے گا کیونکہ وزیر اعظم آپ کے ادارے کو پسند نہیں کرتے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی وجہ سے ملاقات کا ماحول خراب ہوجائے۔

 بہرحال چند منٹوں بعد ہم تین افراد کا وفد وزیر اعظم کے کمرے میں داخل ہوا،عمران خان بڑی گرمجوشی سے ملے اور سنگاپور سے آئے پاکستانی نژاد سرمایہ کار نے ایک لاکھ ڈالر کا چیک وزیر اعظم کے حوالے کیا ، جس پر عمران خان نے ان سےکاروباری منصوبہ پوچھا ، جس پرانھیں بتایا گیا کہ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے پاس صرف نو جہاز رہ گئے ہیں اور پاکستان ہر سال پانچ ارب ڈالر سے زائد شپنگ فریٹ کی مد میں غیر ملکی جہازراں کمپنیوں کو ادا کرتا ہے ، وہ چار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے پچاس بڑے تجارتی جہاز مرچنٹ شپنگ کے شعبے میں لانا چاہتے ہیں لیکن حکومت کو یہ وعدہ کرنا ہوگا اگلے دس سال تک یہ تمام کارگو اس نئی شپنگ کمپنی سے منگوائے گی جس پر پاکستانی جھنڈا لگا ہوگا ، اس سرمایہ کاری سے بیس ہزار نوکریاں پیدا ہونگی اور پاکستانی مرچنٹ نیوی کے شعبے میں انقلاب آجائے گا ۔ 

وزیر اعظم نے سنگاپوری سرمایہ کار کی بہت تعریف کی لیکن زیادہ تر وہ فون پر ہی مصروف رہے اور ایک حساس ادارے سے اپنے اور اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کی خفیہ رپورٹیں طلب کرتے رہے ،ہماری ملاقات کا وقت ختم ہوگیا، اگلے تین دن تک کسی وزیر یا سرکاری ادارے نے رابطہ نہ کیا اور چار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ وہیں ختم ہوگیا، آج وہ سنگاپوری سرمایہ کار کہتے ہیں کہ صرف وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں بیچنے، گاڑیاں نیلام کرنے سے ملک ترقی نہیں کرتے، اس کیلئے نتیجہ خیز محنت لازم ہے اور یہ خوبی شہباز شریف میں نظر آتی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔