بلاگ
Time 04 جولائی ، 2023

آئی ایم ایف- الوداع سے خوش آمدید تک!

ٹھیک سات برس پہلے، جولائی 2016ءمیں وزیراعظم نوازشریف نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا تھا ۔ ’’آج کے بعد اِن شاء اللہ ہمیں کبھی آئی۔ایم۔ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑیگی۔ الوداع آئی۔ایم۔ایف۔‘‘ اور آج ہم آئی۔ایم۔ایف سے تین ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی پیکیج ملنے کے بعد، اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے نعرہ زن ہیں۔ ’’خوش آمدید آئی۔ایم۔ایف۔‘‘ اڑان بھرتے ہوئے پاکستان کے بال وپر کس نے کاٹے؟ اب یہ کوئی راز نہیں رہا۔ ’’الوداع آئی ایم ایف‘‘ سے ’’خوش آمدید آئی ایم ایف‘‘ تک کا ہر کردار بے نقاب ہوچکا ہے۔

نوازشریف نے جون 2013ء میں تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو تین بڑے مسائل زہریلے شیش ناگوں کی طرح پھنکار رہے تھے۔ توانائی کا شدید بحران بے قابو ہوچکا تھا۔ بیس بیس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ نے صنعتی، تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں مفلوج کررکھی تھیں، معیشت تیزی کے ساتھ روبہ زوال تھی اور دہشت گردی نے ملک کے طول وعرض کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان تین بڑی ترجیحات کیساتھ نوازشریف نے تیسرے سفر کا آغاز کیا۔ ایک بیل آئوٹ پیکیج کیلئے آئی۔ایم۔ایف سے رجوع کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ستمبر کے اوائل میں آئی۔ایم۔ایف سے تین برسوں پر محیط 6.6 ارب ڈالر کا پیکیج مل گیا۔ ایوب خان سے 2008ءمیں قائم ہونے والی پی پی پی حکومت تک بیس پروگراموں میں سے کوئی ایک بھی کامیابی کے ساتھ پایۂِ تکمیل کو نہ پہنچ پایا تھا۔

نوازشریف دلجمعی اور یکسوئی کے ساتھ اپنے ایجنڈے پہ چلتا رہا۔ ’’انقلابی عناصر‘‘ بھی اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے مسلسل متحرک رہے۔ شاہراہِ دستور پر عمران خان اور طاہرالقادری کے طویل دھرنے، وزیراعظم ہائوس پر یلغار، جنرل ظہیرالسلام کی وزیراعظم کو دھمکی کہ ’خیر چاہتے ہو تو استعفیٰ دے کر گھر چلے جائو،‘ جمہوریت کی کھُدی قبریں، سربکف کفن پوش دستے، پاناما کا ڈرامہ، ڈان لیکس کا ناٹک، رنگا رنگ جتھوں کی اسلام آباد پر چڑھائی اور انہیں معقول یومیہ الائونس دینے کی وڈیوز، ملازمت میں توسیع کے لئے انگاروں پہ لوٹتے آرمی چیف کی کرتب کاریاں اور میڈیا کے ذریعے نوازشریف کی کردارکُشی کی طویل مہم کے متوازی نوازشریف اپنی طے کردہ مستقیم راہ پر چلتا رہا۔

 اگست 2016ء میں، جب نوازشریف کی پیٹھ پر پانامہ کے تازیانے برسائے جارہے تھے، ہماری تاریخ کا پہلا، اور اب تک کا واحد آئی ایم ایف پروگرام مکمل ہوگیا۔ 1.2ارب ڈالر کی آخری قسط جاری کرتے ہوئے آئی۔ایم۔ایف کے ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا نے رائٹر کو بتایاکہ _ ’’یہ پروگرام مکمل ہونے کے ساتھ ہی پاکستان اپنے بل بوتے پر آگے بڑھنے کے قابل ہوجائے گا۔ اب تک معیشت کی تعمیر نو کیلئے خاصی پیش رفت ہوچکی ہے۔ پاکستان یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہے کہ اب اُسے کسی مزید آئی۔ایم۔ایف پروگرام کی ضرورت نہیں رہے گی۔ حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرلیا ہے۔

 بجٹ خسارا نصف رہ گیا ہے اور معاشی ترقی کی شرح نمو (GDP) خطے کے تمام ممالک سے بہتر ہوگئی ہے۔‘‘ آئی۔ایم۔ایف کے مذاکراتی مشن کے سربراہ ہیرالڈ فِنگر نے کہا _ ’’آئی۔ایم۔ایف پروگرام کے دوران پاکستان نے اپنے تمام معاشی اشاریے بہتر بنا لئے ہیں اور اقتصادی استحکام کے ذریعے مضبوط معیشت کی ٹھوس بنیادیں ڈال دی ہیں۔‘‘

ہر نوع کے جبر اور ہتھکنڈوں کے باوجود نوازشریف نے اپنی تینوں ترجیحات مکمل کیں۔ عالمی اداروں نے کہاکہ اگر تعمیروترقی کا یہ سفر جاری رہا تو پاکستان 2050 ءتک دنیا کی اٹھارھویں بڑی معیشت بن جائیگا۔ اس سب کچھ کے باوجود، اُس کے خون کے پیاسے، اپنی ترجیحات پر کاربند رہے۔ ’’چورڈاکو‘‘ کی کوئی چوری ملی نہ ڈاکہ تاہم پتہ چلا کہ کبھی اسکے بیٹے نے دبئی میں ایک کمپنی قائم کی تھی۔ ویزا کی سہولت کی خاطر نوازشریف کو اس کمپنی میں کوئی عہدہ دیاگیا تھا اور اس کی دس ہزار درہم تنخواہ مقرر تھی۔ یہ تنخواہ نہ لینے کے جرم میں وہ بددیانت قرار پایا اور نہ صرف منصب بلکہ سیاست سے بھی باہر کردیاگیا۔

 2018ءمیں آسودگی بخش اکثریت کی طرف بڑھتی مسلم لیگ (ن) کا راستہ روک کر صندوقچیوں سے دیرینہ خوابوں کے تعبیر نامے برآمد کئے گئے اور عمران خان کی ’’فتح‘‘ کیساتھ ہی مسلح افواج کے باضابطہ ترجمان نے مسرت سے سرشار لہجے میں ایک قرآنی آیت پر مشتمل ٹویٹ کیا۔ ’’اور اللہ جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے ذلّت دے۔‘‘ 2018ءمیں پٹڑی سے اتار کر پاکستان کو اندھی تاریک راہوں میں جھونک دینے والے ذمہ دارجو بھی ہیں، جہاں بھی ہیں، مزے میں ہیں لیکن صورتحال کی اصلاح فوج کے سرپر بہت بڑا قرض ہے۔

 اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ 2018ء جیسی مشقِ تیرہ بخت پھر سے دہرائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ پاکستانی تاریخ کے اس سب سے بھیانک تجربے سے حاصل ہونے والے سبق کو اپنے نصابِ حکمت کا حصہ بنالے اور آئندہ کسی فرد سے نفرت اور فرد سے محبت کی بنیاد پر پاکستان کو بحرانوں کی چِتا میں نہ جھونکے۔ اگر موجودہ آرمی چیف، اس سوچ کے تسلسل کو یقینی بناکر اسے مستقل ادارہ جاتی حکمتِ کار کا حصّہ بناسکیں تو شاید کسی حد تک2018ءکی زیاں کاری کا ازالہ ہوسکے۔

حدِّ ادب سے تجاوز نہ ہو تو عدل وانصاف کی بارگاہِ اقدس میں فروکش اُن جج صاحبان کو بھی یاددلایا جائے کہ آپ نے بھی ’’الوداع اور خوش آمدید‘‘ کے درمیان پھیلی بے ثمری میں بھرپور حصہ ڈالا تھا۔ بلکہ کچھ کے دلوں میں آج بھی وَصلِ یار کے گریز پاموسموں کی دھیمی دھیمی آنچ سلگ رہی ہے۔ فوج کی طرح عدلیہ بھی اپنا کڑا احتساب کرے اور اپنے من مندر میں کسی مورتی کو سجانے کے بجائے خوفِ خدا کو جگہ دے۔اسی طرح میڈیا کے کچھ مہم جُو عناصر کی تراش خراش کو ایک خاص راہ پر ڈال دیا گیا اور بعض دانشورانِ فتنہ ساماں رضاکارانہ طورپر اس سپاہ کا حصہ بن گئے۔ چار برس کی غارت گری اور 9مئی کی ترشی نے بھی اُن کا نشہ نہیں اتارا۔ انہیں اپنے حال اور سیلِ وقت کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا چاہیے۔ البتہ سنجیدہ خُو صاحبانِ قلم وقرطاس اور مبصرین کو ضرور اپنی سمت کا تعین کرنے کیلئے ذہن وفکر کے نئے دریچے وا کرنا ہونگے۔

’’الوداع آئی ایم ایف سے خوش آمدید آئی ایم ایف‘‘ تک کا سفر فوج، عدلیہ اور میڈیا کے عناصر ثلاثہ کی بے ننگ ونام مہم جوئی کا نوحہ ہے۔ اِن سب کو اپنے اپنے حصے کا قرض چکانا ہوگا۔ ورنہ وہ اپنی ساکھ کے حوالے سے ’’دیوالیہ‘‘ قرار پائیں گے اور اس دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے ابھی تک کوئی’’ آئی۔ایم۔ایف‘‘ وجود میں نہیں آیا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔