11 اگست ، 2023
عمر بڑھنے کے ساتھ بال سفید ہونا غیرمعمولی نہیں ہوتا۔
جوانی میں بال جس رنگ کے بھی ہوں مگر عمر بڑھنےکے ساتھ وہ سفید ہونے لگتے ہیں، کیونکہ وقت کے ساتھ بالوں کی جڑوں میں رنگت کو برقرار رکھنے والے خلیات کے افعال متاثر ہوتے ہیں۔
بالوں میں سفیدی عمر بڑھنے کی نشانی سمجھی جاسکتی ہے مگر ایسا کسی بھی عمر میں ہوسکتا ہے۔
ویسے تو سائنسدان اب تک اس قدرتی عمل کے میکنزم کو مکمل طور پر سمجھ نہیں سکے، مگر حالیہ برسوں میں اس حوالے سے چند تحقیقی رپورٹس ضرور سامنے آئی ہیں، جن سے کسی حد تک معلوم ہوتا ہے کہ جوانی یا درمیانی عمر میں لوگوں کے بال سفید کیوں ہو جاتے ہیں۔
2018 میں الاباما یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ بالوں کے سفید ہونے کا عمل پیدائشی مدافعتی نظام کے متحرک ہونے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
جرنل PLOS Biology میں شائع تحقیق کے مطابق مدافعتی نظام کے بہت زیادہ متحرک ہونے سے بالوں کی رنگت برقرار رکھنے والے خلیات melanocytes پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ کسی وائرل انفیکشن سے متاثر ہونے اور بالوں کی سفیدی کے درمیان تعلق موجود ہے۔
چوہوں پر کیے جانے والے تجربات کے دوران دریافت کیا گیا کہ جب وائرس مدافعتی نظام پر حملہ کرتا ہے تو متاثرہ خلیات کی جانب سے ردعمل کے طور پر interferons تیار کیے جاتے ہیں، جو قریبی خلیات کو سگنل بھیجتے ہیں تاکہ وہ اپنا تحفظ کر سکیں۔
تحقیق کے مطابق اگرچہ یہ سگنلز صحت کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں مگر ان کی تعداد زیادہ ہونے سے melanocytes خلیات کی تعداد کم ہونے لگتی ہے اور بالوں کی رنگت بننے کا عمل تھم جاتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ چوہوں پر ہونے والی اس تحقیق کے نتائج کا اطلاق انسانوں پر ہو سکتا ہے یا نہیں، یہ کہنا تو مشکل ہے مگر اس سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ کچھ افراد کے بال جوانی میں ہی کیوں سفید ہو جاتے ہیں۔
2020 میں جرنل نیچر میں شائع ایک تحقیق میں چوہوں پر کیے جانے والے تجربات سے معلوم ہوا کہ تناؤ کے شکار رہنے سے بالوں کی رنگت برقرار رکھنے والے خلیات melanocytes کی تعداد گھٹ جاتی ہے۔
یہ وہ خلیات ہوتے ہیں جو بالوں کی جڑوں میں زندہ رہتے ہیں۔
اس تحقیق کے دوران چوہوں کے جسم میں ایسے مرکبات داخل کیے گئے جو تناؤ کا باعث بننے والے ہارمون کی سطح میں اضافہ کرتے تھے۔
محققین نے دریافت کیا کہ تناؤ بڑھنے سے بالوں کی جڑوں میں ایک کیمیکل norepinephrine کی مقدار بڑھ گئی۔
محققین نے بتایا کہ اس کیمیکل سے بالوں کی جڑوں میں موجود ان خلیات پر اثرات مرتب ہوتے ہیں جو نئے بالوں کی نشوونما میں مدد دیتے ہیں اور بتدریج خلیات نیا رنگ بنانا چھوڑ دیتے ہیں، جس کے بعد بالوں کی رنگت سفید ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
اگرچہ اس تحقیق کے نتائج کا اطلاق مکمل طور پر انسانوں پر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں چوہوں کو شامل کیا گیا تھا مگر 2021 میں جرنل ای لائف میں شائع ایک تحقیق میں براہ راست انسانی بالوں پر تناؤ کے اثرات کا مشاہدہ کیا گیا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تناؤ کے نتیجے میں انسانوں کے بال قبل از وقت سفید ہونے لگتے ہیں، البتہ یہ تبدیلی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی۔
اس تحقیق میں پہلی بار ایسے شواہد فراہم کیے گئے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ ذہنی تناؤ اور بالوں کی سفیدی کے درمیان تعلق موجود ہے۔
اس تحقیق میں 14 افراد کو شامل کیا گیا اور جن افراد کے بال کسی حد تک سفید ہو گئے تھے، انہیں اپنی زندگی کے تجربات اور تناؤ کے بارے میں لکھنے کی ہدایت کی گئی۔
محققین نے دریافت کیا کہ تناؤ کا باعث بننے والے واقعات جیسے ملازمت سے محرومی سے بال سفید ہونے لگتے ہیں، البتہ تناؤ پر قابو پانے سے اس عمل کو ریورس کرنا ممکن ہے۔
محققین نے ایسا ریاضیاتی ماڈل تیار کیا تھا جو تناؤ سے متعلق مائی ٹو کانڈریا اور ڈی این اے میں آنے والی تبدیلیوں سے آگاہ کرکے وضاحت کرسکے کہ تناؤ کس طرح بالوں کو سفید کرتا ہے۔
خیال رہے کہ مائی ٹو کانڈریا، خلیات کے اندر انٹینا کی طرح ہوتے ہیں جو مختلف طرح کے سگنلز بشمول ذہنی تناؤ پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
محققین کے مطابق ہمارے ماڈل سے عندیہ ملتا ہے کہ بالوں کو سفید ہونے کے لیے ایک مخصوص حد تک پہنچنے کی ضرورت ہوتی ہے، درمیانی عمر میں یہ حد مختلف عناصر کے باعث قریب آجاتی ہے جبکہ تناؤ اس جانب سفر تیز کردیتا ہے۔
آسان الفاظ میں بال جوانی میں تناؤ کے نتیجے میں سفید ہوئے ہوں اور بہت جلد ذہنی حالت کو بہتر بنالیا جائے تو ممکن ہے کہ بالوں کی رنگت کو ریورس کیا جاسکے۔
مگر محققین نے واضح کیا کہ بالوں کی سفید رنگت کو ایک بار پھر سیاہ میں بدلنے کا عمل بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔
اپریل 2023 میں نیویارک یونیورسٹی کے گروسمین اسکول آف میڈیسن کی ایک تحقیق میں بالوں کی سفیدی کے میکنزم کو دریافت کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
درحقیقت محققین کا دعویٰ تھا کہ اس دریافت کے بعد لوگوں کے بالوں کو سفید ہونے سے روکنا ممکن ہو سکتا ہے یا سفید رنگت کو واپس تبدیل کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔
جرنل نیچر میں شائع تحقیق میں بالوں کی رنگت برقرار رکھنے والے خلیات melanocytes پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔
زندگی کے ابتدا میں یہ خلیات بہت زیادہ متحرک ہوتے ہیں مگر بالوں کی عمر بڑھنے، گرنے اور دوبارہ نکلنے کے عمل کے باعث یہ خلیات بتدریج بالوں کی جڑوں میں پھنس جاتے ہیں، جس کے باعث ان کے لیے اپنا کام کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
اس تحقیق میں چوہوں میں ان خلیات کا جائزہ لیا گیا تھا۔
محققین نے بتایا کہ یہی ممکنہ عمل بالوں کی گہری رنگت سے محرومی اور انہیں سفید کرنے کا باعث بنتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ اس میکنزم کی دریافت سے ممکن ہے کہ خلیات کی پوزیشن کو ٹھیک کرکے بالوں کی سفید رنگت کو ریورس کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ چوہوں پر یہ تجربات کامیاب رہے اور ممکنہ طور پر انسانوں پر بھی یہ طریقہ کار کام کرسکتا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیاگیا کہ بالوں کی معمول کی نشوونما کے دوران خلیات بالوں کی جڑوں میں موجود مختلف خانوں میں منتقل ہوتے رہتے ہیں اور ان کے اندر یہ بالوں کی رنگت بحال رکھنے والے خلیات کو متحرک کرتے ہیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس پورے عمل کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ اسٹیم سیلز کس جگہ پر موجود ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔