پاکستان

نیب ترامیم کیس فل کورٹ سنے، جسٹس منصور نے بینچ پر اعتراض اٹھادیا

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست کی سماعت میں جسٹس منصور علی شاہ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دیتے ہوئےکہا عدالت پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا فیصلہ کرے یا فل کورٹ تشکیل دے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف کیس کی 47 ویں سماعت کی۔

دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث خرابی صحت کے باعث عدالت میں پیش نہ ہوسکے، خواجہ حارث کی جانب سے وکیل ڈاکٹر یاسر عدالت میں پیش ہوئے اور  بتایا کہ خواجہ حارث کی عدم حاضری کی وجہ سے معذرت خواہ ہیں۔

 جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیےکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ملٹری ٹرائل کیس میں لکھے اپنے نوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میرے خیال سے اس کیس کو فل کورٹ کو سننا چاہیے، آج بھی چیف جسٹس پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ نیب ترامیم کیس فل کورٹ سنے، ابھی تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا فیصلہ نہیں ہوا،اگر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ ہو جاتا تو معاملہ مختلف ہوتا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 3 اور 4 کے تحت یہ کیس کم از کم 5 رکنی بینچ سن سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیےکہ یہ کیس 2022سے زیر التوا ہے، ضروری نہیں کیس کے میرٹ پر فیصلہ دیں، نیب ترامیم کے خلاف دائر کی گئی درخواست کے قابل سماعت  ہونے  پر بھی فیصلہ دے سکتے ہیں، 2023 میں نیب قانون میں کی گئی ترامیم کو  ہمارے سامنے کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا، نیب ترامیم کیس ایک طویل عرصے سے زیر سماعت ہے، میری ریٹائرمنٹ قریب آن پہنچی ہے، یہ انتہائی اہم مقدمہ ہے مجھے ہر صورت فیصلہ دینا ہوگا، اگر فیصلہ نہ دے سکا تو میرے لیے باعث شرمندگی ہوگا، فریقین آئندہ سماعت پر حتمی دلائل دیں۔

سابقہ اتحادی حکومت کے وکیل ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے جسٹس منصور علی شاہ کی تجویز سے اتفاق کیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ایڈووکیٹ مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئےکہا کہ ہمارے لیے مشکلات پیدا نہ کریں، آپ اس کیس سے کیوں کترا رہے ہیں.عدالت نے نیب ترامیم کے خلاف کیس کی سماعت 28 اگست تک ملتوی کردی۔ 

مزید خبریں :