بلاگ
Time 19 اگست ، 2023

مسیحی عبادت گاہوں پر حملے؟

جڑانوالہ انگریز دور میں آباد ہونے والا شہر یا قصبہ ہے جو لائلپور(فیصل آباد) کی تحصیل ہے۔ یہ شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور فیصل آباد کا ایک طرح سے سنگم ہے۔ قدیم دور میں یہاں کوئی کنواں تھا جس کے ساتھ برگد کا بڑا سا درخت اپنے گھنے سائے کے ساتھ موجود تھا جس کے نیچے مسافر آرام کرتے اور پانی پیتے اس برگد کی چونکہ بڑی بڑی جڑیں تھیں جو اوپر بھی لٹک رہی ہوتیں اس نسبت سے اس آبادی کا نام جڑانوالہ کھوہ سے جڑانوالہ شہر بنا۔

ہمارا پنجابی لوک قصہ مرزاں صاحباں بھی اسی سرزمین سے متعلق ہے اور اس سے بڑھ کر انگریز سرکار کے خلاف لڑنے والے معروف کریکٹر بھگت سنگھ کا بھی یہ شہر ہے۔ بھگت سنگھ کی حویلی اسی نام کے ساتھ آج بھی یہاں موجود ہے بہت سے انڈین زائرین جو ننکانہ صاحب تشریف لاتے ہیں ان میں سے کچھ ادھر کی یاترا کو بھی آتے ہیں۔ پارٹیشن سے قبل یہاں مسلمان ہی نہیں مسیحیوں، ہندوؤں اور سکھوں کی بھی بڑی آبادی موجود تھی آج بھی یہاں مساجد کے ساتھ چرچز، گورودوارے اور مندر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں جس طرح آج یہاں مسیحیوں کے گرجاگھروں پر حملے ہوئے ہیں دسمبر92ء میں اسی طرح بابری مسجد کے ریفرنس سے مندروں پر بھی حملے ہوئے تھے بالخصوص مین سٹی کے بڑے مندر کو خاصا نقصان پہنچا تھا۔

آج جس طرح ہمیں سترہ اگست ضیاء الحق کے کریش کی خبردیتا ہے، اسی روز ہماری ہمسائیگی میں افغانستان ایک مرتبہ پھر طالبانی جبر کے اندھیروں میں چلا گیا۔ اب یہ دن جڑانوالہ کے مسیحیوں پر حملے کی حیثیت سے بھی یادکیاجائے گا ،جہاں ابتدائی رپورٹ کے مطابق سولہ گرجا گھروں کو آگ لگائی گئی جس سے نہ صرف سوکے قریب بائبل یا انجیل کے نسخے جل گئے بلکہ دیگر مسیحی لٹریچر اور املاک کو بھی بھسم کرڈالا گیا ،مسیحی آبادیوں میں کتنے گھر لوٹے گئے اور کتنے جلائے گئے ان کی تفاصیل سوشل میڈیا پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔خدا کا شکر ہے کہ جونہی بلووں کی فضا بن رہی تھی اور مسجدوں میں اعلانات کے بعد لوگ اکٹھے ہونا شروع ہورہے تھے اس کی خبرمسیحی آبادیوں تک بھی پہنچ گئی، یوں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نام لیوا مرد و خواتین اپنی اور اپنے بال بچوں کی جانیں بچانے کے لیے فوری طور پر اپنے گھروں سے نکل بھاگے جس کو جہاں پناہ ملی وہیں جا چھپا کچھ نے تو مضافاتی کھیتوں اور فصلوں میں رات گزاری یوں ان مظلوموں کی جانیں تو بچ گئیں البتہ گھر اُجڑ گئے اس پر مسیحی خواتین کے بہتے ہوئے آنسو ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ 

ایک مسیحی روتے ہوئے بتارہا تھا کہ یہ بٹوارے کا ہی منظر تھا۔ 47ء کی پارٹیشن کے بہت سے دلخراش مناظر اس لیے عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہ گئے کہ تب کیمروں کی اتنی دستیابی نہ تھی جبکہ آج میڈیا میں ترقی کی وجہ سے نہ صرف لوگ بروقت باخبر ہونے پر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے بلکہ فوٹیج میں ہم مسیحی املاک کو آگ لگانےکے مناظر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ نفرت، حقارت اور غصے کے ملے جلے جذبات کے ساتھ جلاؤ گھیراؤ کے یہ واقعات کیونکر وقوع پذیر ہوئے اس پر جتنے منہ اتنی باتیں ،جبکہ اصل حقائق بھی ہم سب پر واضح ہیں فی الحال ہم لوگ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ جتنی جہالت، جنونیت اور عدم برداشت ہماری قوم میں سرایت کر چکی اور کرتی جارہی ہے دنیا کی کوئی دوسری قوم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

16اگست کو جس نوع کی واردات پاکستان میں ہوئی ہے اگر ایسی ہی کوئی حرکت خدا نخواستہ مسلمانوں کے حوالے سے انڈیا میں ہوئی ہوتی یا کسی مغربی ملک میں روا رکھی گئی ہوتی تو اب تک یہاں احتجاجی جلوس تھمنے کا نام نہ لے رہے ہوتے، ان کے سفارت خانوں پر حملے ہورہے ہوتے اور علماء و دانشور ببانگ دہل یہ مطالبہ کر رہے ہوتے کہ ان کے سفیر کو ملک بدر کرو۔ ہمارے جذبات، ہمارے جذبات..... کیا دنیا میں صرف ہمارے ہی جذبات ہیںیا ہم ہی انسان ہیں؟ کیا دوسرے لوگوں کے کوئی انسانی حقوق نہیں۔آخر ہماری اس نوع کی سائیکی یا مائنڈ سیٹ کس نے تشکیل دے رکھا ہے جو ذرا سا اعلان ہونے پر یوں جمع ہوجاتا اور بھڑک اُٹھتا ہے کہ پھر جو بھی سامنے آئے اس کی خیر نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔