30 اگست ، 2023
چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس میں ضمانت نے ملک میں سیاسی بھونچال پیدا کردیا ہے۔یوں تو قیدی نمبر 804 کی رہائی کیلئے تحریک انصاف کو مزید انتظار کی ضرورت ہے مگر انکی ضمانت ہی نے کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں اور ان میں یہ بھی کہ کہیں بیرونی دباؤ تواثرنہیں دکھانے لگا؟
اس میں دو رائے نہیں کہ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کا ووٹ بنک مکمل طورپر تاحال توڑا نہیں جاسکا تاہم یہ بھی حقیقت ہےکہ جس طرح چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے موقع پرلوگ باہر نہیں نکلے تھے، اُسی طرح توشہ خانہ کیس میں سزامعطلی کے باوجود ملک بھر میں کہیں پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حامیوں کا جشن نہیں دیکھا گیا۔
اس کےبرعکس امریکا میں تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان کیلئے لابنگ کی کوششیں ہر گزرتےروز بڑھائی جارہی ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کو نائیجیریا، بنگلادیش، کمبوڈیا اور کوسوو سے بدتر قراردیتے ہوئے وزیرخارجہ انٹونی بلنکن سے کہا گیا ہے کہ اگر امریکا انسانی حقوق کا چیمپیئن ہے تو پاکستان کی خبرکیوں نہیں لیتا؟
امریکا میں اس بار یہ پہلا موقع تھا کہ سالانہ کنونشن کے موقع پر امریکا میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم اپنا بھی منقسم نظرآئی، ڈاکٹروں کی بڑی تعداد نے غیرمعمولی اقدام کرتے ہوئےچیئرمین پی ٹی آئی کیلئے انتہائی جذباتی اورمتنازعہ تقاریرسےبھرا علیحدہ ایونٹ کرڈالا۔
امریکا میں پاکستانی ڈاکٹرسب سےزیادہ منظم، صاحب حیثیت اور فعال ہیں۔ یہ پی ٹی آئی امریکا ہی کی مہربانی ہے کہ گیارہ سو سے زائد ڈاکٹروں نے اپنی تنظیم بنالی ہے جو فرینڈز آف عمران خان کے نام سے فعال ہے۔ان میں سے کئی اراکین کانگریس سے مل کر ان سے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کرتے نظر آتےہیں۔
کانگریس مین کرگ کاسر سے حال ہی میں ملاقات کرنیوالے وفد نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں جمہوریت پٹڑی سے اتاری جاچکی، لہذا اس میں ملوث شخصیات کے ویزوں پرہی پابندی لگادی جائے۔
پاکستان کی جگ ہنسائی اور اراکین کانگریس کو کمیونٹی کی مبینہ تشویش جتانے کے لیے امریکا میں ایک ہزار بل بورڈز کرایے پر لے کر پیغام دیا گیا کہ پاکستان یرغمال ہے، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ساتھ ہی مطالبہ کیا گیا کہ جمہوری اقداراور آئین پاکستان کے تحفظ کیلئے تعاون کیا جائے۔
ریاست ٹیکساس میں سیکڑوں گاڑیوں کی ریلی بھی اسی مہم کا حصہ تھی۔
پی ٹی آئی اور اسکے چاہنے والے اس سے پہلے اراکین کانگریس پر دباؤڈالتے رہے تھے کہ آئی ایم ایف سے کہا جائے کہ پاکستان کا قرض پروگرام مشروط کیا جائے جس میں بڑی حد تک انہیں کامیابی بھی ملی، سخت ترین شرائط کی صورت میں یہ تحفہ مزید مہنگا بھی پڑا۔
سوال یہ ہے کہ اوورسیز پی ٹی آئی اپنی لابنگ یا امریکا میں وائٹ ہاؤس اور برطانیہ میں ٹن ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر مظاہروں سے حاصل کیا کرنا چاہتی ہے؟ کیا اس کا مقصد یہ ہےکہ جس طرح دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان سے ڈومور کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں، اب جمہوریت اور انسانی حقوق کے معاملات پر بھی ڈو مور کی تکرار کرائی جائے؟
اس دباؤ کے نتیجے میں صرف ملک میں بے یقینی کی صورتحال ہی بڑھے گی جو معیشت کی مزید تنزلی کا سبب بنے گی اور عام آدمی جسے الیکشن میں ایندھن کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے وہ مزید پسے گا۔
یہ صورتحال ملک کی سیاسی جماعتوں کیلئے بھی پیغام ہے کہ وہ 90 روز میں الیکشن کے لیے یک زبان ہوں اور بھرپور انتخابی مہم چلائیں تاکہ لوگوں میں شعوربڑھے، عوام کو سہانے سپنے دکھانے کے بجائے مہنگائی کا بم گرنے کی حقیقت بتائیں اور معیشت کو پٹڑی پر لانے کا ٹھوس لائحہ عمل دیں۔
انتخابی مہم کا بھرپورانداز سے تاحال شروع نہ ہونا، کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے کیونکہ اس الیکشن میں سب سے زیادہ اہمیت ووٹرز کے ٹرن آؤٹ کی ہوگی۔
سیاستدانوں سے لوگ مایوس ہوئے توانتہاپسندوں کو جگہ لینے کا موقع ملے گا۔
اس ملک میں تقریبا ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے، یہی صورتحال رہی تو دس سال بعد جب یہ جوان ہوں گے تو ان میں سیاسی شعور کا تصور محال ہوگا، پندرہ برس جب یہ صاحب خانہ ہوں گے تو آج کے یہ بچے کل انتہاپسندوں کے لیے ہم خیال فیملی کی صورت دستیاب ہونے کا خدشہ حقیقت کاروپ اختیار کرنے لگے گا۔
ملک کو روشن خیال اعتدال پسند، نیا پاکستان اور خوشحال بنانے کی باتیں اپنی جگہ، لوگوں کا یہ یقین پختہ ہوگیا ہےکہ سیاستدان محض اپنے مفاد کیلئے حکومت میں آتے ہیں اور عام آدمی کی زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں لائی جاتی۔
سوال یہ ہےکہ کیا اس بار کچھ بدلےگا؟ 76برس کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو بارہا یہ حقیقت واضح ہےکہ ہم نےتاریخ سے یہی سیکھا ہے کہ کچھ نہ سیکھیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔