18 ستمبر ، 2023
لگ بھگ ہر فرد کو زندگی میں کبھی نہ کبھی سانس کی بو کے مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔
طبی زبان میں اس مسئلے کے لیے halitosis کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور اس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں بلکہ کئی بار مختلف امراض بھی اس کے پیچھے چھپے ہوتے ہیں۔
عموماً سانس کی بو ایک عارضہ مسئلہ ہوتا ہے مگر کچھ کیسز میں یہ دائمی بھی ثابت ہوتا ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق 50 فیصد بالغ افراد کو زندگی میں کبھی نہ کبھی اس مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔
اس کی چند وجوہات درج ذیل ہیں۔
عام طور پر زبان، دانتوں اور مسورڑوں پر غذا کے ذرات کا اجتماع سانس کی بو سے متاثر ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
یہ ذرات جب سڑ جاتے ہیں تو ناخوشگوار بو سانس سے خارج ہونے لگتی ہے۔
مخصوص بیکٹریا زبان پر موجود ہوتے ہیں جو خوراک کے ذرات کے ساتھ مل کر سانس میں بو کا باعث بنتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دانتوں کی صفائی کے ساتھ ساتھ زبان کی صفائی کو معمول بنانا بھی ضروری ہے۔
مخصوص غذائیں جیسے لہسن، پیاز یا دیگر تیز مہک والی غذاؤں کے استعمال سے بھی اس مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔
ہمارا معدہ غذاؤں میں موجود تیل کو جذب کرتا ہے جو خون میں شامل ہوکر پھیپھڑوں تک پہنچتا ہے۔
وہی تیل سانس کی بو کا باعث بھی بنتا ہے۔
تمباکو نوشی کی عادت بھی سانس کی بو کا باعث بنتی ہے۔
جب ہمارا منہ خشک ہوتا ہے تو لعاب دہن کی مقدار بھی کم ہوجاتی ہے، جب لعاب دہن کی مقدار کم ہوتی ہے تو کھانے کے ذرات اور بیکٹریا منہ میں زیادہ وقت تک موجود رہتے ہیں۔
منہ کھلا رکھ سونا یا مخصوص ادویات سے منہ خشک ہو سکتا ہے جبکہ لعاب دہن کے غدود کے مسئلے سے بھی ایسا ہو سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کم پانی پینے سے بھی منہ خشک ہوتا ہے جس سے بھی سانس کی بو کا خطرہ بڑھتا ہے۔
دانتوں یا مسوڑوں کے امراض کا سامنا اس وقت ہوتا ہے جب آپ دانتوں پر جمنے والی گندگی کو درست طریقے سے صاف نہ کریں، اس کے نتیجے میں وقت گزرنے کے ساتھ مسوڑے متاثر ہوتے ہیں۔
یہ گندگی دانتوں اور مسوڑوں کے درمیان موجود رہتی ہے جس سے تیز بو سانس سے خارج ہونے لگتی ہے۔
کئی بار نتھنوں کے انفیکشن، سانس کی نالی کے امراض، ٹانسل اسٹون اور دیگر سے بھی سانس کی بو کا سامنا ہوتا ہے۔
گردوں کے امراض، جگر کے امراض، ذیابیطس اور سینے میں تیزابیت کی ایک علامت سانس کی عجیب بو بھی ہوتی ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ ایسے گھریلو ٹوٹکوں کی کمی نہیں جن کی مدد سے سانس کی بو سے نجات ممکن ہے۔
تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا کہ اکثر سانس کی بو منہ خشک ہونے کا نتیجہ ہوتی ہے۔
لعاب دہن ہمارے منہ کو صاف رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس کی کمی سے بیکٹریا کی تعداد بڑھتی ہے۔
ہمارا منہ نیند کے دوران قدرتی طور پر خشک ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے صبح کے وقت سانس کی بو کافی نمایاں ہوتی ہے۔
تو مناسب مقدار میں پانی پینے کی عادت سے لعاب دہن بننے کا عمل بہتر ہوتا ہے اور سانس کی بو پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے۔
دہی میں صحت کے لیے مفید ایسے بیکٹریا ہوتے ہیں جو نقصان دہ بیکٹریا کا مقابلہ کرتے ہیں۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دہی کھانے سے سانس کی بو کے مسئلے پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
اس مقصد کے لیے دن میں ایک بار کچھ مقدار میں بغیر چینی کی دہی کا استعمال کریں۔
دودھ کو بھی سانس کی بو سے نجات کا اچھا ذریعہ مانا جاتا ہے۔
خاص طور پر لہسن اور پیاز وغیرہ کھانے کے بعد دودھ کے ایک گلاس کو پینے سے سانس کی بو سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔
سونف کھانے سے بھی سانس کو مہکانے میں مدد ملتی ہے۔
سونف میں ایسے تیل ہوتے ہیں جو سانس کو مہکانے کا کام کرتے ہیں۔
مالٹوں میں وٹامن سی موجود ہوتا ہے جو لعاب دہن بننے کا عمل تیز کرتا ہے جس سے سانس کی بو کا باعث بننے والے بیکٹریا کا خاتمہ ہوتا ہے۔
یعنی یہ پھل دانتوں کی صفائی کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔
یہ گرم مشروب بھی سانس کی بو سے نجات کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
سبز چائے میں موجود خصوصیات سے سانس کی بو کو عارضی طور پر دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ سیب کھانے سے لہسن یا پیاز کھانے کے بعد سانس میں پیدا ہونے والی بو کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔
سیب میں موجود مخصوص قدرتی مرکبات اس حوالے سے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
بیکنگ سوڈا منہ میں موجود بیکٹریا کا خاتمہ کرتا ہے۔
اس کو استعمال کرنے کے لیے 2 چائے کے چمچ بیکنگ سوڈا کو ایک کپ گرم پانی میں ملائیں اور اس محلول سے کلیاں کریں۔
ایک یا 2 لونگ چبانے سے بھی سانس کی بو پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
اس کی جراثیم کش خصوصیات منہ میں موجود بیکٹریا کا مقابلہ کرتی ہیں۔
لیموں کے ایک ٹکڑے کو چبانے سے بھی سانس کو مہکانا ممکن ہے۔
اس میں موجود ایسڈ سے لعاب دہن بننے کا عمل تیز ہوتا ہے اور سانس کی بو سے مقابلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
پودینے کے پتے چبانے سے بھی سانس کی بو سے نجات پانا آسان ہو جاتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔