اخروٹ کھانے کے یہ 10 فوائد آپ کو ضرور پسند آئیں گے

اخروٹ بیشتر افراد کو پسند ہوتے ہیں / فائل فوٹو
اخروٹ بیشتر افراد کو پسند ہوتے ہیں / فائل فوٹو

اخروٹ بیشتر افراد کو پسند ہوتے ہیں اور انہیں مختلف پکوانوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

اسے سال بھر کھایا جا سکتا ہے اور صحت کے لیے بہت زیادہ مفید ہوتا ہے۔

صحت پر اخروٹ کے فوائد پر سائنسدانوں نے کافی کام کیا ہے اور امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن نے اسے دل کی صحت کے لیے بہترین قرار دیا ہے۔

اخروٹ میں چکنائی، فائبر، پروٹین، کاربوہائیڈریٹس، پوٹاشیم، وٹامن ای، میلاٹونین اور پولی فینولز جیسے اجزا موجود ہوتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ گری اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کے حصول کا بھی اچھا ذریعہ ہے۔

اس کے چند فوائد درج ذیل ہیں۔

کولیسٹرول کی سطح میں کمی

جرنل نیوٹریشنز میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اخروٹ کھانے سے بلڈ کولیسٹرول کی سطح میں کمی آتی ہے۔

اسی طرح امریکن جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اخروٹ کے استعمال سے کولیسٹرول کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔

اس میں موجود چکنائی صحت کے لیے نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح میں کمی آتی ہے۔

بلڈ پریشر کنٹرول میں رہتا ہے

جرنل آف دی امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اخروٹ میں موجود چکنائی ہائی بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

تحقیق کے مطابق اخروٹ میں موجود چکنائی اور فیٹی ایسڈز سے خون کی شریانیں کشادہ ہوتی ہیں جس سے بلڈ پریشر کی سطح گھٹ جاتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس گری میں موجود وٹامن ای شریانوں میں مواد کو جمع ہونے سے روکتا ہے۔

دل کے لیے مفید

اخروٹ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کے حصول کا اچھا ذریعہ ہے اور یہ غذائی جز ورم کش ہوتا ہے جس سے دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

جاما انٹرنل میڈیسن میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ خون میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کی مقدار بڑھنے سے ہارٹ اٹیک سے موت کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

اسی طرح اخروٹ کھانے سے ورم کم ہوتا ہے اور ورم بڑھنے سے امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔

ذیابیطس کا خطرہ کم کرے

جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اخروٹ سمیت دیگر گریوں کے استعمال سے ذیابیطس سے متاثر ہونے کا خطرہ 30 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

اسی طرح اگر کوئی فرد ذیابیطس کا مریض ہے تو اخروٹ کھانے سے بلڈ شوگر کی سطح کو کنٹرول میں رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

جسمانی وزن میں کمی

اگرچہ اخروٹ میں کیلوریز کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے مگر تحقیقی رپورٹس کے مطابق اس سے جسمانی وزن میں کمی لانے میں مدد مل سکتی ہے۔

اس میں موجود متعدد اجزا جیسے فائبر اور پروٹین اس حوالے سے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

فائبر اور پروٹین کو ہمارا جسم دیر سے ہضم کرتا ہے جس سے پیٹ بھرنے کا احساس دیر تک برقرار رہتا ہے اور بے وقت کچھ کھانے سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

اسی طرح یہ گری بلڈ شوگر کو مستحکم رکھ کر بھی جسمانی وزن کو کنٹرول میں رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

جسمانی توانائی میں اضافہ

اخروٹ میں موجود غذائی اجزا جسمانی توانائی میں اضافہ کرتے ہیں جس سے دن بھر مستعد رہنے میں مدد ملتی ہے۔

تحقیقی رپورٹس کے مطابق تھکاوٹ کے احساس سے لوگ ایسی غذاؤں کا انتخاب کرنے لگتے ہیں جو فوری توانائی فراہم کر سکیں جیسے میٹھا، جس کے نتیجے میں بلڈ شوگر کی سطح بہت تیزی سے بڑھتی ہے اور پھر گھٹ جاتی ہے۔

کینسر سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے

اینٹی آکسائیڈنٹس اور ورم کش ہونے کی وجہ سے اخروٹ کھانے سے کینسر سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہو سکتا ہے۔

تحقیقی رپورٹس کے مطابق گریاں بشمول اخروٹ کھانے سے بریسٹ کینسر کا خطرہ 2 سے 3 گنا گھٹ جاتا ہے۔

تحقیقی رپورٹس میں دریافت ہوا کہ اخروٹ میں موجود پولی فینولز سے کینسر کی مختلف اقسام سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

دماغی افعال بہتر ہوتے ہیں

اخروٹ میں موجود اومیگا تھری فیٹی ایسڈز سے عمر بڑھنے سے دماغ کو جوان رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کے ساتھ ساتھ وٹامن بی 6 اور کاپر جیسے اجزا بھی دماغی افعال کو بہتر بنانے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اخروٹ کھانے کی عادت سے دماغی تنزلی کی رفتار گھٹ جاتی ہے۔

معدے کے لیے مفید

تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ اخروٹ میں موجود اجزا معدے میں موجود صحت کے لیے مفید بیکٹریا کی نشوونما بڑھاتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں معدے سمیت دل کی شریانوں کی صحت بہتر ہوتی ہے۔

مردوں میں بانجھ پن کا خطرہ کم ہوتا ہے

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اخروٹ کھانے سے مردوں کی تولیدی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔

اس تحقیق کے مطابق اخروٹ کھانے سے اسپرمز کی صحت بہتر ہوتی ہے جس سے بانجھ پن کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

البتہ بانجھ پن کے مسائل کے شکار مردوں کو اخروٹ کھانے سے کوئی فائدہ ہوتا یا نہیں، اس بارے میں تحقیق میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :