جوڑوں کی تکلیف میں کمی لانے والے بہترین طریقے

عام طور پر یہ مرض خون میں یورک ایسڈ جمنے کے نتیجے میں ہوتا ہے / فائل فوٹو
عام طور پر یہ مرض خون میں یورک ایسڈ جمنے کے نتیجے میں ہوتا ہے / فائل فوٹو

کیا آپ جوڑوں کے درد میں مبتلا ہیں ؟ اگر ہاں تو آپ تنہا نہیں درحقیقت عمر کی چوتھی اور پانچویں دہائی میں اکثر افراد کو اس تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔

درحقیقت عمر بڑھنے کے ساتھ ہڈیاں بھی کمزور ہونے لگتی ہیں جس کے باعث جوڑوں کا درد لوگوں کو اپنا شکار بنالیتا ہے۔

عموماً یہ مرض خون میں یورک ایسڈ جمنے کے نتیجے میں ہوتا ہے۔

عام طورپر یہ یورک ایسڈ خون میں تحلیل ہوکر گردوں کے راستے پیشاب کے ذریعے نکل جاتا ہے مگر جب جسم میں اس کی زیادہ مقدار بننے لگے تو گردے اس سے نجات پانے میں ناکام رہتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں یہ جوڑوں میں کرسٹل کی شکل میں جمنے لگتا ہے جس سے جوڑوں میں درد ہونے لگتا ہے۔

جوڑوں کے امراض کی متعدد اقسام ہیں اور لگ بھگ سب میں ورم کا کردار اہم ہوتا ہے۔

مگر اچھی بات یہ ہے کہ چند گھریلو ٹوٹکوں سے جوڑوں کی تکلیف میں کمی لانا ممکن ہے۔

درحقیقت ڈاکٹر بھی ان طریقوں کی حمایت کرتے ہیں۔

اومیگا 3 سپلیمنٹس کا استعمال

تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کے سپلیمنٹس کا استعمال جسمانی ورم میں کمی لاتا ہے اور اس سے جوڑوں کی تکلیف گھٹ جاتی ہے۔

پرو بائیوٹکس سے مدد لیں

ہمارے معدے میں موجود بیکٹریا جوڑوں کی صحت کے حوالے سے اہم کر دار ادا کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ معدے میں موجود صحت کے لیے مفید بیکٹریا کی تعداد بڑھانا جوڑوں کے مسائل سے بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔

اس مقصد کے لیے دہی کھانا بہتر ہوتا ہے کیونکہ اس میں موجود پرو بائیوٹکس سے معدے میں صحت کے لیے مفید بیکٹریا کی تعداد بڑھتی ہے۔

مراقبہ بھی مفید

اکثر آٹو امیون امراض (جن میں جسمانی مدافعتی نظام صحت مند خلیات پر حملہ آور ہو جاتا ہے) جیسے جوڑوں کے مسائل کی شدت تناؤ کے باعث بڑھ جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تناؤ کو کنٹرول کرنے جوڑوں کی تکلیف کو کم رکھنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے اور مراقبہ تناؤ میں کمی لانے کا اچھا طریقہ ہے۔

لونگ کا استعمال

لونگ میں ورم کو کم کرنے والے کیمیائی مرکبات موجود ہوتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق لونگ کا استعمال ایسے پروٹین کو جسم میں خارج ہونے سے روکتا ہے جو ورم کو بڑھاتا ہے۔

اس کے علاوہ لونگ میں اینٹی آکسائیڈنٹس بھی موجود ہوتے ہیں جو ہڈیوں کو کمزور ہونے کا عمل سست کردیتے ہیں۔

ہلدی بھی مفید

ہلدی میں موجود اجزا ورم کش ہوتے ہیں اور کچھ تحقیقی رپورٹس میں اسے جوڑوں کی تکلیف کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے ادویات جتنا مؤثر قرار دیا گیا ہے۔

اس کے لیے ہلدی کے سپلیمنٹس کا استعمال کیا جاسکتا ہے مگر اس حوالے سے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا بہتر ہے۔

ہلکی پھلکی ورزش

چہل قدمی ایسی ورزش ہے جو جوڑوں کی تکلیف میں کمی لا سکتی ہے۔

جسمانی سرگرمیوں سے جسمانی وزن میں کمی آتی ہے اور جوڑوں کی تکلیف میں اضافی جسمانی وزن اہم کردار ادا کرتا ہے۔

سبز چائے

سبز چائے پینے کی عادت سے بھی جسمانی ورم میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ سبز چائے میں موجود ای جی سی جی نامی جز جسمانی ورم میں کمی لاتا ہے۔

ایک اور تحقیق میں بتایا گیا کہ سبز چائے پینے سے جوڑوں کی تکلیف کی شدت میں کمی آتی ہے۔

وٹامن ڈی

متعدد افراد میں جوڑوں کا درد وٹامن ڈی کی کمی کا نتیجہ بھی ہوتا ہے۔

تحقیقی رپورٹس کے مطابق جسم میں وٹامن ڈی کی سطح معمول پر رکھنا ہڈیوں کو نقصان سے بچاتا ہے جس کے نتیجے میں جوڑوں کا مرض آپ کو شکار نہیں کرتا۔

جسم میں وٹامن ڈی کی سطح کو بڑھانے کے لیے روزانہ 10 سے 15 منٹ سورج کی روشنی میں رہنا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جبکہ دودھ، انڈے یا مچھلی جیسی غذائیں بھی وٹامن ڈی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔

پسندیدہ موسیقی سنیں

پسندیدہ گانے سننے سے بھی تکلیف میں کمی آتی ہے کیونکہ اس سے ان ہارمونز کی سطح بڑھتی ہے جو تکلیف کی حساسیت کو کم کرتے ہیں۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کمر، گردن اور جوڑوں کی تکلیف کے شکار افراد جب اپنی پسند کے گانے سنتے ہیں تو ان کی تکلیف میں کمی آتی ہے۔

ادرک

ادرک کو پیس کر اس کے پیسٹ کو متاثرہ حصوں پر لگانے سے بھی جوڑوں کی تکلیف میں کمی لانے میں مدد مل سکتی ہے۔

اس پیسٹ میں زیتون کے تیل کو بھی شامل کریں اور متاثرہ حصے پر لگا کر 10 سے 15 منٹ تک چھوڑ دیں۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ادرک کا پیسٹ ایسے دماغی کیمیکل کی مقدار کم کرتا ہے جو مرکزی اعصابی نظام کو تکلیف کا سگنل پہنچانے کا کام کرتا ہے۔

ننگے پیر چلنا

ننگے پیر چلنے سے گھٹنوں کے جوڑوں پر دباؤ کم ہوتا ہے جس سے تکلیف میں کمی آتی ہے۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جوڑوں کے مریض جب جوتے پہن کر چلتے ہیں تو جوڑوں پر دباؤ بڑھتا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :