سائنسدانوں نے انٹار کٹیکا کا کروڑوں برسوں سے چھپا راز دریافت کرلیا

اس خطے کی سیٹلائیٹ تصویر / فوٹو بشکریہ یورپین اسپیس ایجنسی
اس خطے کی سیٹلائیٹ تصویر / فوٹو بشکریہ یورپین اسپیس ایجنسی

سائنسدانوں نے برفانی براعظم انٹار کٹیکا میں کروڑوں برسوں سے چھپے راز کو دریافت کرلیا ہے۔

برطانیہ اور امریکا کے سائنسدانوں نے انٹار کٹیکا میں پہاڑیوں اور وادیوں پر مبنی ایسے خطے کو دریافت کیا ہے جس میں کبھی دریا بھی بہتے تھے اور یہ کروڑوں برسوں سے برف کے نیچے غائب تھا۔

بیلجیئم سے زیادہ بڑا یہ خطہ 3 کروڑ 40 لاکھ برسوں سے انسانی پہنچ سے دور ہے مگر عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے اس کے ابھرنے کا امکان پیدا ہوا ہے۔

12 ہزار اسکوائر میل پر پھیلے اس خطے میں کسی زمانے میں درخت، جنگلات اور ممکنہ طور پر جانور بھی موجود تھے، مگر برف پھیلنے سے وہ وقت میں منجمد ہوگیا۔

محققین نے بتایا کہ یہ ایک ایسا خطہ ہے جو اب تک کسی کی نظروں میں نہیں آیا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ حیران کن ہے کہ یہ خطہ سامنے ہونے کے باوجود نگاہوں سے اوجھل تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ خطہ مشرقی انٹار کٹیکا کی برفانی سطح کے نیچے چھپا ہے اور یہ برفانی براعظم کا وہ حصہ ہے جس کے بارے میں ہمیں مریخ کی سطح سے بھی کم علم ہے۔

محققین کے مطابق سطح کی سیٹلائیٹ تصاویر کو استعمال کرکے سطح سے 1.6 میل نیچے موجود وادیوں اور پہاڑیوں کا سراغ لگایا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ ریڈیو ایکو ساؤنڈنگ تکنیک کی بھی مدد لی گئی۔

اس تکنیک میں ایک طیارہ کسی خطے کے اوپر پرواز کرتے ہوئے ریڈیو لہریں سطح پر بھیجتا ہے جس کے بعد وہاں پیدا ہونے والی گونج کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔

سیٹلائیٹ تصاویر اور ریڈیو ایکو ساؤنڈنگ کے ڈیٹا کو باہم ملانے پر زمانہ قدیم میں دریاؤں کے گزرنے سے بننے والے خطے کی تصویر بنی جس میں وادیاں اور پہاڑیاں موجود ہیں۔

سائنسدانوں کے مطابق یہ بتانا مشکل ہے کہ آخری بار اس خطے نے سورج کی روشنی کب دیکھی ہوگی، مگر ان کے خیال میں کم از کم ایک کروڑ 40 لاکھ سال سے یہ خطہ برف کے اندر دفن ہے۔

تحقیقی ٹیم میں شامل کچھ سائنسدان پہلے بھی انٹار کٹیکا کی برف کے نیچے ایک شہر جتنی بڑی جھیل دریافت کرچکے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اب بھی متعدد ایسے قدیم خطے اس برفانی براعظم میں موجود ہیں جن کو دریافت نہیں کیا جا سکا۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہوئے۔

مزید خبریں :