کھیل
Time 16 دسمبر ، 2023

زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں، ٹیکسی ڈرائیور سے قومی ٹیم تک کا سفر کرنیوالے فاسٹ بولر عامر جمال

ٹیکسی ڈرائیور سے قومی ٹیم تک کا سفر کرنے والے نوجوان فاسٹ بولر عامر جمال نے اس سفر کے دوران اپنی محنت سے متعلق گفتگو کی ہے۔

پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان پرتھ ٹیسٹ میں قومی ٹیم کی جانب سے دو نوجوان فاسٹ بولر خرم شہزاد اور عامر جمال نے ڈیبیو کیا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے سوشل میڈیا پر فاسٹ بولر عامر جمال کی ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی ہے جس میں وہ اپنے قومی ٹیم کے سفر سے متعلق بتا رہے ہیں۔

عامر جمال کا کہنا ہے کہ جب بھی آپ کوئی چیز خرید کر لیتے ہیں تو آپ اس کی زیادہ قدر کرتے ہیں اور جب محنت کے بغیر کوئی چیز آپ کو ملتی ہے تو آپ اس کی اس طرح سے قدر نہیں کرتے، میرا جتنا بھی قومی ٹیم تک پہنچنے کا سفر تھا میں نے اس سے سیکھا ہے کہ زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے، آپ کو ایک پراسس سے گزرنا پڑتا ہے اور جب آپ اس پراسس سے جائیں گے تو اس چیز کو اتنی ہی اہمیت دیں گے جتنی آپ نے کوشش کی ہو گی۔

فاسٹ بولر کا کہنا ہے کہ میری کوشش کا دورانیہ بہت طویل ہے اور آج میں جس جگہ ہوں اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ میں کبھی کسی موقع کو جانے نہیں دیتا، 2014-15 میں پاکستان کی طرف سے انڈر 19 کھیلا، اس کے بعد تقریباً 4 سال کوئی کرکٹ نہیں کھیلا، میرا فرسٹ کلاس ڈیبیو 2018 میں ہوا لیکن اس میں بھی مجھے کبھی موقع ملا اور کبھی نہ ملا، پھر اسی دوران آسٹریلیا سے ایک شخص ہمارے کلب آیا ہوا تھا اس نے کہا کہ آپ بہت سخت محنت کرتے ہیں، میں آپ کو آسٹریلیا سے لیٹر بھجوا دوں گا، آپ وہاں جاکر کرکٹ کھیل لینا، تجربہ بھی ہو جائے گا اور اگر آپ وہاں سیٹ ہونا چاہیں تو وہ بھی دیکھ لیجیے گا۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا میں نے بھی ہاں کر دی اور سوچا کہ آج کل کون کسی کے لیے اتنا کرتا ہے لیکن بہرحال انہوں نے آسٹریلیا جا کر لیٹر بھیجا اور پھر کلب سے بات ہوئی اور میں آسٹریلیا چلا گیا، ابھی میں پہلا سیزن کھیل رہا تھا جو بہت اچھا جا رہا تھا، اسی دوران مجھے علم ہوا کہ پاکستان انڈر 23 ٹیم کسی ٹور پر جا رہی ہے، میں نے کلب سے واپس پاکستان آنے کی اجازت لی اور کچھ میچز چھوڑ کر واپس آگیا، جب پاکستان پہنچا تو یہاں گریڈ ٹو کا سیزن چل رہا تھا لیکن مجھے کھلایا ہی نہیں گیا۔

ان کا کہنا تھا پھر میں نے بینک سے لیز پر گاڑی لے لی کیونکہ مجھے اپنا گھر بھی چلانا تھا اور میں گھر کا سب سے بڑا فرد بھی تھا، اب مجھے گاڑی کو بھی ٹائم دینا تھا، گھر کے اخراجات بھی پورے کرنے تھے اور کرکٹ کو بھی ٹائم دینا تھا تو میری روٹین یہ ہو گئی تھی کہ میں صبح فجر کی نماز کے بعد آن لائن ہو جاتا تھا اور پھر صبح ساڑھے 10 سے 11 بجے تک گاڑی چلاتا تھا پھر 11 بجے سے لیکر دوپہر ایک بجے تک بولنگ پریکٹس کرتا تھا، پھر 3 بجے دوبارہ آن لائن ہو جایا کرتا تھا اور 7 بجے تک آن لائن رہ کر اپنی رائیڈز پوری کر لیتا تھا اور پھر ایک گھنٹہ فٹنس کے لیے جم بھی کرتا تھا۔

فاسٹ بولر نے بتایا کہ جب مجھے پتہ چلا کہ ٹیم میں نام آ گیا ہے تو اس وقت کا احساس بہت ہی اچھا تھا، مجھے اس حوالے سے تھوڑا سا پتا چلا جب میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں گیا تو مجھے دو تین لوگوں نے مبارکباد دی، میں ان لوگوں کو خیر مبارک تو کہہ رہا تھا لیکن مجھے اس وقت تک نہیں پتا تھا کہ یہ کس چیز کی مبارکباد دے رہے ہیں، پھر ہم کیمپ میں چلے گئے اور جب کیمپ سے واپس آئے تو اس وقت ٹیم کا اعلان ہو چکا تھا اور اس میں میرا نام بھی تھا۔

عامر جمال کا کہنا تھا میری کرکٹ سے محبت اسکول کے وقت سے ہی تھی، پڑھنے میں بہت اچھا تھا اس لیے تعلیم پر توجہ نہیں دیتا تھا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ میں سلیبس کو کور کر لوں گا، اسکول کے دنوں میں بھی تین وقت کرکٹ کھیلا کرتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بطور آل راؤنڈر آپ کے لیے اتنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ جب آپ بولنگ کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کو بولنگ پر فوکس کرنا ہوتا ہے اور جب بیٹنگ کرتے ہیں ساری توجہ بیٹنگ پر ہوتی ہے اور فیلڈنگ کے دوران بھی آپ کو گراؤنڈ میں رہنا ہوتا ہے، ورک لوڈ کے حساب سے دیکھا جائے تو آل راؤنڈر کا ورک لوڈ بہت زیادہ ہوتا ہے، میں نے خود کو اسی حساب سے تیار کیا ہے، بولنگ کے ساتھ بیٹنگ کو بھی ٹائم دیتا ہوں۔

اپنے فرسٹ کلاس کیرئیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عامر جمال نے بتایا کہ میرا پہلا میچ ایبٹ آباد کی طرف سے بلوچستان کے خلاف تھا جس میں پہلے اسپیل میں میرا ردھم نہیں بن پا رہا تھا لیکن پھر جب دوبارہ آیا تو میں نے لگاتار 17 اوورز کرائے اور اس دوران 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ بھی کیا، اس دوران ہمارے کوچ سمیع بھائی تھے وہ بھی آوازیں لگا رہے تھے بس کر دو 5 کھلاڑی آؤٹ ہو گئے ہیں لیکن میں نے کہا نہیں ابھی تو مجھے بولنگ کا مزہ آ رہا ہے، پھر میں نے اس میچ میں 8 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جو میرے کیرئیر کا بہترین اسپیل تھا۔

مزید خبریں :