Time 22 دسمبر ، 2023
پاکستان

سپریم کورٹ کے سائفر کیس کے حکم نامے میں جسٹس اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ

پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت منظور کرنے کے حکم نامے میں جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ تحریر کیا۔—فوٹو: فائل
پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت منظور کرنے کے حکم نامے میں جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ تحریر کیا۔—فوٹو: فائل

سپریم کورٹ کے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت منظور  کرنے کے حکم نامے میں جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔

سپریم کورٹ نے  جمعہ کو  سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت منظور کر لی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے چار صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا اور یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔

فیصلے میں قرار دیا گیا کہ سابق پی ٹی آئی چیئرمین نے دوسرے ملک کے فائدے کےلیے سائفر کو پبلک کیا ایسے شواہد نہیں ہیں، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5(3) بی کے جرم کا ارتکاب ہونے کے شواہد نہیں۔

سپریم کورٹ کے سائفر کیس کے حکم نامے میں جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ سوال یہ ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو انتخابات سے قبل گرفتار رکھنا ضروری ہے یا نہیں؟ اس جواب کے لیے انتخابات کی پچھلی سات دہائیوں سے تاریخ دیکھنا ضروری ہے، پاکستان کے وجود میں آنے سے ہی ملک میں جمہوریت کو روندا گیا عمران خان ایک بڑی سیاسی جماعت کے بانی اور شاہ محمود قریشی اعلیٰ عہدے پر ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے خواہشمند امیدواران ہیں ملک میں حقیقی انتخابات کے لیے تمام امیدواروں کو یکساں مواقع دینا آئینی ضرورت ہے ۔

اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ فیڈرل کورٹ کے نظریہ ضرورت سے ملک میں سیاسی انتقام کی بنیاد پڑی۔ملک میں وقت سے پہلے عہدوں سے ہٹائے گئے تمام وزرائے اعظم کو زیر حراست رکھا گیا، وزرائے اعظم کو نااہل کیا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ عام انتخابات 2018 کی مثال موجود ہے جب ایک وزیراعظم کو نا اہل کر کے لیول پلیئنگ فیلڈ چھینی گئی، ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی چڑھا دیا گیا اور اس کا جنازہ بھی پڑھنے نہیں دیا گیا، ملک کی آدھی زندگی کو جبری طور پر آمر کی حکومت میں رکھا گیا جس کو سزا بھی نا ہوئی۔

اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ درخواست گزاروں نے ریپ یا بچوں کے ساتھ زیادتی جیسا کوئی سنگین جرم نہیں کیا، سائفر ٹرائل چل رہا ہے اور درخواست گزاروں کو جیل میں رکھنا بظاہر ضروری نہیں، درخواست گزاروں کی ضمانت سے عوام اپنا حق رائے استعمال کر سکیں گے ۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا کہ فیصلے میں دی گئی آبزرویشنز ٹرائل کو متاثر نہیں کریں گی اور بانی پی ٹی آئی ضمانت کا غلط استعمال کریں تو ٹرائل کورٹ اسے منسوخ کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے سائفر کیس کا ٹرائل 4 ہفتے میں مکمل کرنے کا حکم بھی کالعدم قرار دے دیا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کا ٹرائل چار ہفتے میں مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

مزید خبریں :