بلاگ
Time 25 دسمبر ، 2023

اداکار نثار قادری کی یادیں اور ادھورے ریکارڈز

نثار قادری پاکستانی امریش پوری اور اوم پوری بھی کہا جاتا تھا مگر اوم پوری نے خود اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میں نثار قادری کے ڈرامے دیکھ دیکھ کر اداکاری سیکھتا ہوں— فوٹو: ریڈیو پاکستان
نثار قادری پاکستانی امریش پوری اور اوم پوری بھی کہا جاتا تھا مگر اوم پوری نے خود اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میں نثار قادری کے ڈرامے دیکھ دیکھ کر اداکاری سیکھتا ہوں— فوٹو: ریڈیو پاکستان

پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار نثار قادری راولپنڈی میں انتقال کرگئے، ان کی عمر 82 برس تھی، مرحوم نے اسلام آباد اسٹیشن سے متعدد ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔

اداکار نثار قادری نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز 1966 میں ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے کیا، وہ اس شعبے میں آنے سے قبل ٹیکسی ڈرائیور تھے۔ انہیں یاور حیات نے پی ٹی وی پر اپنے سیریل “دیواریں“ کے ذریعے متعارف کروایا، کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ٹی وی اور نثار قادری ایک ساتھ لانچ ہوئے تھے، نثار قادری ایک فُل ٹائم اداکار تھے، انہیں اس کے علاوہ نا تو کوئی اور کام آتا تھا نا ہی انہوں نے کبھی اداکاری کے علاوہ کوئی اور کام سیکھنے کی کوشش کی، وہ اپنے پیشے سے عبادت کی طرح لگاؤ رکھتے تھے اور پروڈیوسرز کے کمروں میں جا کر کام مانگنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔

انہوں نے ٹی وی، فلموں، تھیٹر اور ریڈیو ڈراموں میں اہم کردارادا کیے، نثار قادری اپنی ذات میں اداکاری کا ایک انسٹی ٹیوٹ تھے۔

نثار قادری نصابی تعلیم حاصل نہ کرسکے تھے، اس کے باوجود انہوں نے فن کی دنیا میں خوب نام کمایا اور آدھی دنیا گھومی، انہوں نے ساری زندگی دولت تو نا کمائی مگر نام کمایا، اس معاشرے کی ستم ظریفی کہیے کہ اتنا بڑا فنکار اپنا ذاتی گھر بنانے کی خواہش اپنے دل میں لیے ہی دنیا سے رخصت ہو گیا۔

سیلف پروموشن، بناوٹی رکھ رکھاؤ اور پبلک ریلیشن کے مروجہ اصولوں سے بالا تر نثار قادری نے کامیڈی اور ٹریجڈی کردار یکساں مہارت سے ادا کیے مگر جدید دور کے کارپوریٹ انٹرٹینمنٹ سیٹ نے انہیں ان کا وہ حق نہیں دیا جو انہیں شاید ہالی وڈ یا بالی وڈ میں رہتے ہوئے میرٹ پر مل گیا ہوتا۔

انہیں پاکستانی امریش پوری اور اوم پوری بھی کہا جاتا تھا مگر اوم پوری نے خود اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میں نثار قادری کے ڈرامے دیکھ دیکھ کر اداکاری سیکھتا ہوں۔ نثار قادری نے لاتعداد ڈراموں میں کام کیا، ظالم، مظلوم یا بیمار آدمی کا کریکٹر وہ اس کے کردار میں ڈوب کر کرتے تھے۔ 

2006 میں انہوں نے ڈرامہ سیریل”ملنگ“ میں کالو میراثی کا جاندار کردار بھی ادا کیا تھا، ان کی آواز ان کا سب سے بڑا فنی ہتھیار تھی، مشہور پروڈیوسر غفران امتیازی ان سے پہلی مرتبہ ملے تو سوال کیا کہ یہ تمھاری اپنی آواز ہے یا تمھیں بنانا پڑتی ہے، اس سوال کو نثار قادری اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے تھے۔

 پی ٹی وی کے ابتدائی دور میں انہیں کنور آفتاب کے لکھے ہوئے ڈرامے “سونے کی چڑیا“سے راتوں رات شہرت ملی، نثار قادری کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کیمرا آن ہوتے ہی بالکل چینج ہو جاتے تھے اور اپنے کردار کو خود پر طاری کر لیتے تھے، انہوں نے ایک ایک ڈرامے کی 19، 19 دن بھی ریہرسلز کی تھیں، اسی لیے وہ کہتے تھے کہ ہم لوگ محنت کر کے مشہور ہوئے ہیں آج کل کے فنکار بغیر محنت کے مشہور ہو جاتے ہیں۔

وہ آج کل کے ڈراموں سے نالاں تھے اور ڈرامے دیکھنا تک چھوڑ چکے تھے۔ 

نثار قادری کوصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور تمغہ امتیاز سے نوازا گیا، ایک ایوارڈ انہوں نے صدر رفیق تارڑ اور دوسرا صدر ممنون حسین کے ہاتھوں سے وصول کیا۔

2010 کی دہائی کے وسط میں وہ چہرے کے فالج کا شکار ہوئے اور اس دوران وہ اسکرین سے غائب رہے، اس بیماری کے باعث ان کی یادداشت بھی متاثر ہو چکی تھی، وہ منفی کردار ادا کرنے کیلئے مشہور تھے۔ وہ کچھ مزاحیہ شوز میں بھی نمودار ہوئے، ڈرامہ سیریل خواہش میں انہوں نے سُکھیا کے کردار سے بھی خوب شہرت پائی، انہوں نے “خاموش پانی “اور “ہم ایک ہیں “جیسی فلموں میں بھی کام کیا۔

وہ قدرتی طور پر ایک ٹرینڈ اداکار تھے ان کی اپنے شعبے پر گہری نظر تھی وہ فن کی باریکیوں کو خوب جانتے تھے۔

پی ٹی وی کراچی مرکز میں ان سے ہونے والی ایک ملاقات کے دوران میں نے ان سے نئے اور پرانے دور کا موازنہ کرنے کو کہا تو اپنے مخصوص جاندار قہقہے کے ساتھ ان کا کہنا تھا کہ ”ابتدا میں ٹی وی کے وہ ڈرامے بھی ریڈیو کی تکنیک پر ہی لکھے جاتے تھے کیونکہ رائٹرز کی دستیاب فورس ریڈیو سے ہی آئی تھی، آج بھی یہی ہے، آپ آنکھیں بند کرکے ٹی وی ڈرامے کی پوری کہانی سمجھ سکتے ہیں، ہمارے رائٹرز  اب تک وژوئل میڈیم کی اسکرپٹنگ نہیں اپنا سکے، ڈائیلاگس کی بھرمار ٹی وی ڈرامے کی ناکامی ہے، زیادہ تر ڈائریکٹرز  وژوئل سچوئیشنز  تخلیق کرنا نہیں جانتے، وہ اسکرپٹ رائٹر کے محتاج ہیں، اگر ٹی وی ڈرامے کا کریکٹر یہ کہے کہ “میں ایک گھنٹے سے تمھارا انتظار کر رہا ہوں“ تو یہ ریڈیو ہے، ٹی وی پر انتظار کی کیفیت جتانے کے ہزار طریقے ہیں، ایش ٹرے میں سگریٹ دکھا دیں، منتظر کو ٹہلتا دکھا دیں، چہرے سے انتظار کی کیفیت دکھا دیں مگر ہمارے یہاں ٹی وی کا اسکرپٹ اب تک ریڈیو کی تکنیک پر لکھا جا رہا ہے”۔

جب نثار قادری اداکاری کرتے تھے اس زمانے میں اسکرپٹ رائٹرز ہر کریکٹر ایکٹر کا ایک نا ایک تکیہ کلام ضرور رکھتے تھے، مثلاً ”جمشید انصاری کا مشہور ڈائیلاگ“چکو ہے میرے پاس”، عابد کشمیری کا “کس کو کہہ ڑے او”، شہزاد رضا کا “ماروں گا گول کدو دُھیں”، جیدی کا “ آئی ایم آ بیوٹی فُل چیپ آف دی جنریشن گیپ “اور ذولقرنین حیدر کا “الکمونیا میں تو ایسا نہیں ہوتا”وغیرہ۔

ابتدائی دور میں عام طور پر پُرانے مستند اور سکہ بند مصنف ہوتے تھے اور وہی ٹی وی کے ڈرامے لکھتے تھے، وہ لوگ کردار نگاری کے اسلوب سے بخوبی واقف تھے، ہر نمایاں کردار سے مخصوص فقرے کہلوانے کا آغاز ریڈیو کے ڈراموں سے ہوا تھا جہاں کردار اپنے مکالموں سے ہی سامعین کے زہن میں اپنی شناخت بناسکتا تھا ایسے میں مخصوص لب و لہجے کے ساتھ تکیہ کلام فقروں کا استعمال کردار نگاری کو چار چاند لگاتا تھا۔ 

اس دور میں کردار کے نام کو یاد رکھنے سے زیادہ آسان بار بار دہرائے جانے والے تکیہ کلام اس کی شناخت بن جاتے تھے۔ نثار قادری مرحوم کا بے دھیانی میں اپنے ماتحت امجد سے ماچس مانگنا بھی ایک ایسی ہی یاد رہ جانے والی بات تھی۔

نثار قادری کے پی ٹی وی سے نشر ہونے والے تقریباً ہر ڈرامے کو ملک بھر میں مقبولیت ملی تاہم ڈرامہ “ایک حقیقت ایک فسانہ” میں ان کے تکیہِ کلام ڈائیلاگ "ماچس ہوگی آپ کے پاس؟” کو جیسی آفاقی شہرت ملی وہ کسی دوسرے اداکار کے بولے ہوئے کسی جملے کو اب تک نہیں مل سکی۔ 

یہ ڈرامہ اور ڈائیلاگ دونوں ہی ریاض بٹالوی کی تخلیق تھے اور اس کا پورا کریڈٹ وہ ریاض بٹالوی کو دیتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اکثر فنکار اپنے ہٹ ڈائیلاگ کو اپنی تخلیق قرار دے کر مصنف کا حق مارتے ہیں مگر میں ایسا نہیں کرتا۔

نثار قادری کے دیگر ڈراموں میں خواہشیں، آتش، پورے چاند کی رات، آدھی دھوپ، اضطراب، انگار وادی، چاند تو میرا ہے، نجات، بہادر علی، کاروان اور سمندر شامل ہیں۔

ابھی تک ڈرامہ انڈسٹری کے کسی ایک بھی ایسے مقبول اداکار کی جانب سے ان کی وفات پر تعزیت کی کوئی پوسٹ نظر سے نہیں گزری جو سوشل میڈیا پر لاکھوں مداحوں کا دعویٰ رکھتا ہو، اس سے اندازہ لگالیں کہ ہمارے موجودہ ریٹنگ کے مارے اسٹارز کو اپنی دنیا کے بہترین اداکاروں کی بابت کتنا علم ہے۔

نثار قادری اپنے پیچھے فن کا ایک خزانہ چھوڑا ہے، ان کی اکثر چیزیں پی ٹی وی کے ریکارڈ میں بھی محفوظ نہیں ہیں مگر اداکاری سیکھنے کیلئے ان کے ڈرامے دیکھنا نئی نسل کیلئے بہت ضروری ہے، یہ علیحدہ بات کہ انہوں نے اپنے پسماندگان میں ایک بیوی کے علاوہ تین بچے چھوڑ ے ہیں اور ان کی اولاد میں سے کوئی اس شعبے کی طرف نہیں آیا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔