01 جنوری ، 2024
جیسے جیسے فروری 2024 میں شیڈول عام انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں ملک کے طول و عرض میں سیاسی گہما گہمی بھی بڑھتی جا رہی ہے، ایک طرف سیاسی جماعتوں کی جانب سے منجھے ہوئے امیدواروں کو میدان میں اتارا جا رہا ہے تو دوسری جانب کچھ سیاسی جماعتیں نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے نئے چہروں کو بھی متعارف کروا رہے ہیں۔
عام انتخابات کے لیے ملک بھر سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جس میں خیبر پختونخوا اسمبلی کی 115 جنرل نشستوں کے لیے منظور ہونے والے 3094 کاغذات نامزدگی میں 101 خواتین بھی شامل ہیں۔
ان باہمت خواتین میں ایک نام جو سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے وہ 25 سالہ سویرا پرکاش کا ہے جو کے پی اسمبلی کی نشست پی کے 25 بونیر سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جنرل نشست پر انتخاب لڑنے جا رہی ہیں۔ ڈاکٹر سویرا پرکاش نے جنرل نشست کے علاوہ صوبائی و قومی کی اقلیتی نشستوں کیلئے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا ئے ہیں۔
سویرا پرکاش پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور ان دنوں سی ایس ایس کی تیاری میں مصروف ہیں، وہ الیکشن میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں اس بات کا فیصلہ تو 8 فروری 2024 کو ہو جائے گا لیکن انہوں نے ناصرف اپنے حلقے بلکہ صوبہ خیبر پختونخوا اور پاکستان سمیت بین الاقوامی سطح پر بھی اہمیت حاصل کرلی ہے اور آج کل ملکی و غیر ملکی میڈیا کی توجہ کا خاص مرکز بنی ہوئی ہیں۔
ایبٹ آباد انٹرنیشنل میڈیکل کالج سے گریجویٹ سویرا پرکاش بونیر میں پیپلز پارٹی کے شعبہ خواتین میں جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہیں اور ان کے والد بھی پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔
سویرا بونیر سے تعلق رکھنے والی پہلی اقلیتی خاتون ہیں جنہوں نے آئندہ عام انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
جیو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سویرا نے بتایا کہ وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علاقے کے عوام کی خدمت کام کرنا چاہتی ہیں اور ان کی اولین ترجیحات میں پسماندہ علاقے میں تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی بھی شامل ہے۔
ڈاکٹر سویرا نے بتایا کہ وہ بینظیر بھٹو سے بہت زیادہ متاثر ہیں کیونکہ وہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں اور اسی چیز نے مجھے بہت زیادہ حوصلہ بھی دیا کہ اگر ایک خاتون ہو کر بینظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم بن سکتی ہیں تو میں بھی علاقے کی خدمت کر سکتی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت نے جب علاقے کا دورہ کیا تو والد اوم پرکاش سے انہیں جنرل نشست پر انتخاب لڑنے کی اجازت دینے کی درخواست کی اور پھر میں نے بھی عوامی فلاح و بہبود اور اپنی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے عملی سیاست میں کودنے کا فیصلہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ترقی کے میدان میں خواتین کو مستقل طور پر نظر انداز کیا جاتا رہا لیکن اب خیبر پختونخوا کے عوام کو بھی شعور آگیا ہے کہ خواتین بھی کسی سے کم نہیں ہیں اور چاہے خواہش سے ہو یا پھر مجبوری میں خواتین کو بھی ہر شعبے میں آگے آنا پڑے گا۔
پیپلز پارٹی کی رہنما نے مزید بتایا کہ مجھے علاقے کے عوام کی جانب سے بھی بہت زیادہ سپورٹ ملی اور خاص طور پر مردوں کی بڑی تعداد نے مجھ سے رابطہ کر کے الیکشن میں لڑنے کا مشورہ دیا جس سے میرا حوصلہ مزید بڑھا اور یہ تاثر بھی زائل ہوا کہ خیبر پختونخوا میں خواتین اور وہ بھی جو اقلیت سے تعلق رکھتی ہو اسے اہمیت نہیں دی جاتی، مجھے فخر ہے کہ میری وجہ سے بونیر اور پاکستان کا نام پوری دنیا میں لیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی حالیہ ترامیم کے تحت اب سیاسی جماعتوں کے لیے جنرل نشستوں پر 5 فیصد خواتین امیدواروں کی شمولیت لازمی ہے۔
عام انتخابات میں کامیابی کے حوالے سے ڈاکٹر سویرا نے کہا کہ جس طرح عوام کی سپورٹ مل رہی ہے تو مجھے 99 فیصد یقین ہے کہ میں الیکشن جیت جاؤں گی لیکن اگر الیکشن نا بھی جیتی تو سیاسی پلیٹ فارم سے عوام کی خدمت کا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رکھوں گی۔
ڈاکٹر سویرا نے بتایا کہ الیکشن میں کامیابی کے لیے ہم اپنے سینئرز کے تجربے اور نوجوانوں کی طاقت اور ان کے آئیڈیاز سے آگے بڑھیں گے اور علاقے کی بہتری کے لیے کام کریں گے۔
ان کا کہنا تھا پیپلز پارٹی بونیر کے صدر سیف اللہ نے بھی پی کے 91 سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مجھے بہت زیادہ عوامی سپورٹ حاصل ہے تو انہوں نے میری حمایت کرتے ہوئے اپنے کاغذات واپس لے لیے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی مہم کے لیے گھر گھر بھی جاؤں گی اور جلسے بھی کروں گی، میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دوں گی اور انہیں الیکشن کی اہمیت کے بارے میں بھی بتاؤں گی۔
ڈاکٹر سویرا کا کہنا تھا سکیورٹی کے حوالے سے مجھے کسی قسم کے خطرات نہیں ہیں، میں جہاں بھی جاتی ہوں علاقے کے مرد اور پارٹی رہنما میرے ساتھ ہوتے ہیں اور ہم بلا خوف و خطر آزادانہ نقل و حرکت کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی رہنما کا کہنا تھا چونکہ میں ایک ڈاکٹر ہوں اور مجھے اسپتال میں پیش آنے والے مسائل کا اندازہ ہے اس لیے میں یہی کہوں گی کہ مخصوص نشستوں پر پروفیشنلز کو آگے آنا چاہیے تاکہ وہ اپنے شعبوں کے مسائل کو حل کرنے میں معاون ثابت ہو سکیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں ہمیشہ کشیدگی رہی ہے لیکن ہمارے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے چاہئیں اور میرے الیکشن لڑنے سے جہاں دنیا بھر میں پاکستان کا ایک اچھا تاثر جائے گا وہیں میری کوشش ہو گی کہ اپنی استطاعت کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے کوشش کروں اور پل کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کو قریب لا سکوں۔
ڈاکٹر سویرا پرکاش نے کہا کہ ہمارا علاقہ دشوار گزار پہاڑی ہونے کی وجہ سے یہاں بہت سے مسائل ہیں لیکن میری ترجیحات میں ایجوکیشن، ہیلتھ اور ماحولیاتی آلودگی شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا میری سب سے زیادہ توجہ تعلیم پر ہو گی کیونکہ تعلیم سے ہی عوام میں شعور اور آگہی پیدا ہوتی ہے اور جب علاقے کی عوام تعلیم یافتہ ہو گی تو ان کے لیے نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے جس سے علاقے اور ملک کی معیشت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اب علاقے کے لوگوں کے خیالات بہت زیادہ بدل رہے ہیں اور علاقے میں لڑکیوں کے تعلیمی ادارے بھی کھل رہے ہیں جو بہت اچھی چیز ہے اور علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مزید کام کرنے کی خواہش رکھتی ہوں۔
اس کے علاوہ صحت پر بھی خصوصی توجہ مرکوز رکھوں گی کیونکہ ہمارے علاقے میں صحت کی سہولیات اس طرح سے میسر نہیں جس طرح سے شہروں میں دستیاب ہیں، تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت کا صحت کارڈ کا اقدام اچھا تھا لیکن اس میں ہمیں خرد برد کی شکایات بھی ملیں، میری کوشش ہو گی کہ صحت پروگرام کو جاری رکھتے ہوئے اس طرح کی پالیسی ترتیب دی جائے تاکہ اس میں پیسوں کے حصول کے لےی دو نمبری نہ ہو سکے اور اس کا باقاعدہ ریکارڈ بھی مرتب کیا جائے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما کا کہنا تھا بھارتی میڈیا پر پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کے حوالے سے خبریں چلائی جاتی ہیں، بھارت میں بھی اقلیتوں کے ساتھ اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں، حتیٰ کہ یورپ میں بھی ہوتے ہیں، جبری شادی یا جبری مذہب کی تبدیلی کے ایک دو واقعات کو جواز بنا کر اسے پورے معاشرے پر نہیں تھوپا جا سکتا، خیبر پختونخوا میں ہندو اور سکھوں کی بڑی تعداد آباد ہے جو یہاں طویل عرصے سے ہنسی خوشی رہ رہے ہیں اور ہم سب ساتھ مل کر ہی اپنے علاقے، صوبے اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے کام کر سکتے ہیں۔