پاکستان سے متعلق طبی رپورٹ میں اینٹی بائیوٹکس کے غیر ضروری استعمال پر اظہار تشویش

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

پاکستان میں ڈاکٹرز کی جانب سے غیر ضروری طور پر اینٹی بائیوٹکس ادویات کے نسخوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی، تازہ طبی تحقیقی میں ماہرین نے شہریوں کو سنگین خطرات سے خبردار کردیا ہے۔

آغا خان یونیورسٹی اور لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کی حال ہی میں مرتب کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں مریضوں کو اینٹی مائکروبائل ریزسٹینس (AMR) کے "سنگین" خطرے کا سامنا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اے ایم آر کا مطلب یہ ہے کہ بیکٹیریا، وائرس اور پیراسائٹس میں ان ادویات سے لڑنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے جو اُن کے خاتمے کیلئے دی جاتی ہیں، اس کی بنیادی وجہ ڈاکٹرز کی جانب سے مریضوں کو اندھا دھند اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کرانا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق صرف سال 2019 میں اینٹی مائکروبائل ریزسٹینس (AMR) دس لاکھ سے زائد اموات کی ذمہ دار تھی۔

حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ اینٹی بائیوٹکس کے اندھا دھند استعمال کے پیچھے وہ ڈاکٹرز ہیں جو مخصوص ادویات تجویز کرنے کیلئے فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے ذاتی فوائد یا مراعات حاصل کرتے ہیں، اس صورت حال کی ایک وجہ اینٹی بائیوٹکس کی میڈیکل اسٹور پر کھلے عام فروخت بھی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 90 فیصد پرائیویٹ ڈاکٹر ہفتہ وار بنیادوں پر فارماسیوٹیکل سیلز کے نمائندوں سے ملتے ہیں اور یہ کہ پاکستان میں مراعات کو قبول کرنا یا حاصل کرنا معمول کی بات ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے 40 فیصد ڈاکٹروں نے مراعات قبول کرنے اور مریضوں کو دوائیں تجویز کرنے پر اتفاق کیا، ڈاکٹر مالی دباؤ اور ملک میں قوانین کو توڑنے کے ناکافی نتائج کی وجہ سے دوائیں تجویز کرنے پر راضی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اے ایم آر سے متعلق اقوام متحدہ کے انٹر ایجنسی کو آرڈینیٹنگ گروپ کا اندازہ ہے کہ 2050 تک اے ایم آر دنیا بھر میں 10 ملین لوگوں کی موت کا باعث بن سکتا ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے جنرل سیکرٹری، اور سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے رکن ڈاکٹر عبدالغفور شورو، نے تسلیم کیا کہ مفادات کے تصادم کی وجہ سے کچھ ڈاکٹر دوا ساز کمپنیوں کی فروخت بڑھانے کیلئے اینٹی بائیوٹکس اور دیگر ادویات تجویز کرنے میں مصروف ہیں، وہ لوگ تحائف، دوروں پر جانے کی پیشکش اور دیگر مالی فوائد کے بدلے میں ایسا کرتے ہیں۔

ڈاکٹرعبدالغفور شورو نے عرب نیوز کو بتایا کہ بہت سے لوگ ملوث ہیں اس لیے جب آپ مالی فائدہ اٹھاتے ہیں، تو آپ واپس کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اس معاملے میں، صرف مریض ہی ادائیگی کرتے ہیں اور تکلیف اٹھاتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالغفور کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تپ دق کے کیسز میں مزاحمت کی سطح MDR (ملٹی ڈرگ ریزسٹنس) سے بڑھ کر XDR (بڑے پیمانے پر ڈرگ ریزسٹنٹ) ہو گئی ہے جبکہ ٹائیفائیڈ کے کیسز میں بھی مزاحمت کی سطح XDR تک بڑھ گئی ہے، دنیا نے پاکستان کے صوبہ سندھ میں 2016 کے آخر میں XDR ٹائیفائیڈ کا پہلا کیس دیکھا تھا۔

ڈاکٹر شورو نے خبردار کیا کہ آپ کے پاس اینٹی بائیوٹکس کی محدود دستیابی ہے اور آگے جانے سے، تمام [بیماریاں] مزاحم ہو جائیں گی جو ایک بڑا مسئلہ ہو گا

پاکستان کی صحت کی صورتحال پر تحقیق اور نگرانی کا ذمہ دار ادارہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ ہے اے ایم آر پر مشتمل عالمی مقاصد کے مطابق 2017 میں تیار کیے گئے نیشنل ایکشن پلان پر کام کر رہا ہے۔

ڈاکٹر سلمان نے اعتراف کیا کہ اے ایم آر پر قابو پانا ایک مشکل کام ہے، گزشتہ پانچ سے چھ سالوں میں اے ایم آر کی موجودگی کے شواہد حاصل کرنے کیلئے مزید کوششیں کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شواہد اکٹھا کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے عکاسی کرنے کیلئے کافی ثبوت پیدا ہوں گے اور اے ایم آر پر مشتمل مزید سرمایہ کاری کی وکالت میں مدد ملے گی۔

جب پاکستان میں ہیلتھ پریکٹیشنرز سے متعلق مفادات کے تصادم کے الزامات پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو ڈاکٹر سلمان نے انہوں نے تسلیم کیا کہ انسٹیٹیوٹ کے پاس کافی ثبوت نہیں ہیں، لیکن پرائیویٹ اور پبلک سیکٹرز میں ڈاکٹروں اور معالجین کی طرف سے خاص طور پر اینٹی بائیوٹکس کے غیر ضروری نسخے کے طریقے ہیں۔

مزید خبریں :