بلاگ
Time 06 فروری ، 2024

جامعہ کراچی کا 31 واں کانووکیشن، دیر آید درست آید

اکتوبر 2019 میں دنیا کورونا جیسے وائرس سے دوچار ہوئی اور فروری 2020 میں اس عالمی وبا نے پاکستان میں بھی دستک دے دی۔ عالمی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے چند اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) لازمی قرار دیے گئے۔

 احتیاطی تدابیر میں سماجی دوری (سوشل ڈسٹینسنگ) برقرار رکھنا سب سے اہم پہلو تھا۔ اس کے نتیجے میں ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی جسکا اثر تعلیمی نظام پر بھی پڑا۔ ریگولر کلاسز کے ساتھ ساتھ تقسیمِ اسناد کے انعقاد میں بھی دشواری کا سامنا ہوا۔

کورونا کی شدت میں کمی کے بعد جامعہ کراچی نے دسمبر 2021 میں دو سال ( 2020 اور 2021 ) کے کانووکیشن ایک ساتھ کرنے کا اعلان کیا لیکن تقریب میں فقط گولڈ میڈلسٹ کو مدعو کیا گیا جس کے سبب وہ تمام طلبا و طالبات جو پوزیشن نہیں لاپائے تھے لیکن زندگی بھر اس کانووکیشن کا خواب دیکھتے آئے تھےاس میں شرکت کا موقع حاصل نہ ہونے پر بے انتہا مایوس نظر آئے۔

کانووکیشن کی تاریخ 22 جنوری 2022 مقرر ہوئی اور اس میں شرکت کرنے کیلئے 7500 روپے فیس کا اعلان کیا گیا۔ فیس کے علاوہ طلبہ نے 2500 کا کانووکیشن گاؤن اور کیپ جامعہ سے خریدا جسے کانووکیشن کے بعد واپس کرنے پر 500 روپے کرایہ کاٹ کر 2000 روپے واپس ہونے تھے۔

21 جنوری 2022 تمام گولڈ میڈلسٹ کانووکیشن سے ایک روز قبل ریہرسل کیلئے جامعہ کراچی پہنچے اور خوشی خوشی گھر لوٹ گئے لیکن اچانک کراچی میں چلنے والی تیز ہواؤں کے سبب پنڈال گرگیا اور کانووکیشن ملتوی ہوگیا۔

22 جنوری کا دن جو جامعہ کراچی کے پوزیشن ہولڈرز کے گھروں میں جشن کا باعث بننے والا تھا اب افسردگی کی وجہ بن چکا تھا۔ اس کے بعد پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کانووکیشن کی نئی تاریخ کا انتظار کرنے لگے لیکن نئی تاریخ کے بجائے 11 فروی جامعہ کراچی نے ایک ایسا نوٹس جاری کیا جس نے تمام پوزیشن ہولڈرز کی امیدوں کا چراغ مدھم کردیا۔ مذکورہ نوٹس پوزیشن ہولڈرز کےگاؤن اور کیپ کی واپسی اور کانووکیشن کی اگلی تاریخ کا اعلان بعد میں کیے جانے کے حوالے سے تھا۔

اس نوٹس کو پڑھ کر تمام پوزیشن ہولڈرز گہرے صدمے میں چلے گئے اور انہوں نے کانووکیشن کی تمام تر امیدیں کھودیں اور بعض نے اپنے گاؤن کو واپس کر کے 2000 روپے لینے کے بجائے اسے ملتوی ہوجانے والے کانووکیشن کی یاد میں سنبھال کر رکھ لیا۔

دن مہینوں میں اور مہینے سال میں بدل گئے لیکن پوزیشن ہولڈرز کی نگاہوں سے وہ ایک نوٹس نہیں گزرا جس کا انہیں بے صبری سے انتظار تھا اور ایسے میں انکی زبانوں پر مرزا غالب کا یہ شعر رواں رہا کہ ’کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی‘۔ لیکن پھر بھی سب ہی طلبہ کو علامہ اقبال کا یہ شعر ہمت دیتا رہا کہ 'پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ' اور بالآخر 8 جنوری 2024 کو جامعہ کراچی کی جانب سے وہ نوٹس جاری کیا گیا جس نے ایک مرتبہ پھر پوزیشن ہولڈرز کی دلوں کی دھڑکنیں تیز کردیں اور امید کے بجھے ہوئے چراغ پھر جل اٹھے۔

مذکورہ نوٹس سال 2021 میں ملتوی ہونے والے کانووکیشن کی نئی تاریخ کے حوالے سے تھا۔ 11 اور 22 جنوری 2024 کو جامعہ کراچی کی جانب سے پوزیشن ہولڈرز کو دعوت ناموں کے حوالے سے میسج اور ای میلزبھیجے گئے۔26 جنوری جامعہ کے ولیکا گراؤنڈ میں سجنے والے جامعہ کراچی کے 31ویں کانووکیشن کے پنڈال میں ریہرسل کیلئے بلایا گیا۔اس دن طالبعلموں کو ایک مرتبہ پھر ان کی مخصوص نشستوں کے متعلق بتایا گیا۔ طلبہ ریہرسل سے واپس اپنے گھر لوٹ گئے لیکن اس وقت ان کے دلوں میں خوف تھا کہ کہیں پھر سے تاریخ خود کو دہرا نہ دے۔

27 جنوری وہ تاریخ بنی جو جامعہ کراچی کے ہونہار طالبعلموں کے صبر کا پھل تھا، جس کے خواب صرف نیند میں ہی نہیں بلکہ پوزیشن ہولڈرز نے کھلی آنکھوں سے بھی دیکھے تھے۔

31ویں کانووکیشن میں بطور مہمانِ خصوصی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی، گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری، چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد کو مدعو کیا گیا جن میں سے کامران خان ٹیسوری تقریب کا حصہ نہ بن سکے۔

تقریب کا آغاز تعلیمی جلوس پروفیسرز،  ڈینز، شیخ الجامعہ اور مہمانِ خصوصی کی آمد سے ہوا جن کا استقبال تمامحاظرین نے کھڑے ہوکر بھرپور تالیوں کیساتھ کیا جس کے بعد سب اپنی مختص نشستوں پربیٹھ گئے۔ پھر حب الوطنی کے ساتھ قومی ترانہ پڑھا گیا اور اس کے بعدسید محمد یوسف نے سورۃ حشر کی آخری تین آیات کی تلاوت کی۔

تلاوتِ قرآنِ پاک کے بعد شیخ الجامعہ نے 31ویں کانووکیشن کے دو سال ملتوی ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ 'سال 2019 میں 30ویں کانووکیشن کے بعد عالمی وبا کورونا اور مالی تنگی کے سبب سال 2020 اور 2021 میں کانووکیشن کا انعقاد نہیں کیا جاسکا'۔

علاوہ ازیں انہوں نے ایچ ای سی کی جانب سے جامعہ کراچی میں فٹ بال اکیڈمی کے قیام کا تذکرہ کرتے ہوئے جرمنی کی اُلم یونیورسٹی اور جامعہ کراچی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے متعلق بھی بتایا۔

شیخ الجامعہ نے اپنے خطاب کے بعد چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد کو تقریب کے شرکا سے خطاب کرنے کی دعوت دی۔ ڈاکٹر مختار احمد نے ڈگری اور پوزیشن حاصل کرنے والے طالبعلموں کو مبارکباد دیتے ہوئے انہیں ملک کا سرمایہ  قرار دیا جبکہ تمام طالبعلموں کی اس کامیابی کا سہرا ان کے والدین کے سر سجاتے ہوئے اسے والدین کی محنت، قربانی اور تربیت کی وصولی کا وقت قرار دیا۔انہوں نے طلبہ سے درخواست کی کہ آپ اس ملک کی آئندہ نسلوں کیلئے مشعلِ راہ بنیں اور سرزمینِ پاکستان کو سنوارنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

چیئرمین ایچ ای سی کے خطاب کے بعد صدر مملکت عارف علوی نے تمام طالبعلموں کو ان کی حاصل کردہ اسناد پر فائز کیا اور اسپانسرز کی جانب سے دیے گئے اضافی طلائی تمغاجات عطا کیے۔ اس کے بعد وہ روسٹرم پر تشریف لائے اور طالبعلموں کو ان کی اس بڑی کامیابی پر مبارکباد دینے کے علاوہ تعلیم یافتہ قوموں کا دوسری قوموں پر ظلم، ملک میں انٹرنیٹ کی بندش اور تعلیمی اداروں کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا۔خطاب کے بعد صدر مملکت نے تقریب سے رخصت لے لی۔

تقریب کو آگے بڑھاتے ہوئے بیچلرز اونرز اور ماسٹرز میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے تمام طالبعلموں کو شیخ الجامعہ خالد عراقی نے گولڈ میڈل سے نوازا اور اس لمحے کی یادگار تصاویر بنوائی گئیں۔بعدازاں پی ایچ ڈی اور ایم فِل کے طالبعلموں کو اسناد سے نوازا گیا۔تقریب کا اختتام دعا کے بعد تعلیمی جلوس کی واپسی پر ہوا۔

اگرچہ اس تقریب کو صدرِ مملک کی شرکت نے زینت بخشی لیکن ان کی سکیورٹی کے باعث طالبعلموں کو موبائل فونز، کیمرے اور ہینڈ بیگز پنڈال میں لانے کی اجازت نہیں دی گئی جس کے سبب طالبعلم اپنی زندگی کی اس خاص تقریب کے یادگار لمحات تصاویر اور ویڈیوز کی شکل میں محفوظ کرنے سے قاصر رہے اور اس اقدام کی وجہ سے تقریب کے شرکا میں بے چینی بھی پائی گئی۔

پنڈال کے اندر اور باہر موجود سکیورٹی کی بھاری نفری کو دیکھ کر بھی طلبہ اور ان کے والدین اس فکر میں گُھلتے رہے کہ کہیں کسی بڑی دہشتگردی کے خدشات تو نہیں اور تمام تقریب اس ہی ڈر کیساتھ گزار دی۔

طالب علم کیمرے نہ ہونے کے سبب اپنے ساتھ گولڈ میڈل اور اسناد حاصل کرتے وقت کی تصویر نہ لے پانے پر مایوس تھے لیکن جامعہ کراچی کی آفیشل ویب سائٹ پر کانووکیشن کی تصاویر اور تقریب کی مکمل ویڈیو شیئر کردی گئی جس نے گولڈ میڈلسٹ کے آنسو پونچھنے میں مدد دی۔

اس کانووکیشن میں شرکت کرنے والے طالبعلم تقریب میں اپنے ان ساتھی طالبعلموں کی کمی بھی محسوس کرتے رہے جن کے ساتھ انہوں نے یہ تعلیمی سفر طے کیا تھا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔