02 مئی ، 2024
ورزش کو صحت کے لیے فائدہ مند تصور کیا جاتا ہے اور جسمانی فٹنس کا حصول بھی ممکن ہوتا ہے۔
ورزش کو معمول بنانے سے جسمانی فٹنس کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔
درحقیقت ورزش کے متعدد فوائد ہیں جیسے جسمانی وزن میں کمی، امراض قلب سے تحفظ، ذیابیطس، ذیابیطس اور دیگر دائمی امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے جبکہ ڈپریشن یا انزائٹی سے بچنا بھی ممکن ہوتا ہے۔
مگر ورزش نہ کرنے سے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، کیا آپ نے کبھی سوچا ہے؟
جی ہاں واقعی جیسے ورزش کرنے سے صحت بہتر ہوتی ہے، ویسے ہی اس سے دوری سے جسم اور ذہن دونوں پر متعدد منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
جسمانی سرگرمیوں سے دوری قبض کا شکار بنا سکتی ہے۔
تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ جسمانی طور پر فٹ افراد کو اس مسئلے کا سامنا بہت کم ہوتا ہے۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ جسمانی سرگرمیاں بڑھانے سے قبض سے ریلیف مل سکتا ہے۔
ایک اور تحقیق میں بتایا گیا کہ جو افراد اپنا زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں، ان میں قبض کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
جوڑوں میں تکلیف کا سامنا بیشتر افراد کو ہوتا ہے اور یہ اکثر کسی مرض کا نتیجہ ہوتی ہے۔
مگر جوڑوں کو استعمال نہ کیا جائے تو بھی وہ اکڑ جاتے ہیں۔
آسان الفاظ میں ورزش سے دوری اور زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنا جوڑوں کی تکلیف کا باعث بن سکتا ہے۔
ورزش ہمارے پھیپھڑوں کو مضبوط بناتی ہے اور اس سے دوری ان مسلز کو کمزور کرتی ہے جو پھیپھڑوں کو سانس لینے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں روزمرہ کے کاموں کے دوران بھی سانس پھول جاتا ہے۔
ورزش سے دوری صرف جسمانی صحت کو ہی متاثر نہیں کرتی بلکہ دماغی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق ورزش نہ کرنے سے ڈپریشن اور انزائٹی کی شدت بڑھ جاتی ہے جبکہ چڑچڑا پن طاری ہو جاتا ہے۔
چہل قدمی، جاگنگ یا سوئمنگ جیسی ورزشیں مزاج پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہیں اور ڈپریشن سے بچنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔
کیا آپ کو ہر وقت تھکاوٹ یا سستی کا سامنا ہوتا ہے؟ اگر ہاں تو یہ بھی ورزش نہ کرنے کی ایک نشانی ہے۔
ورزش کرنے سے جسمانی ٹشوز کو آکسیجن اور غذائی اجزا کی فراہمی بڑھتی ہے۔
اس کے مقابلے میں زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنے سے جسمانی ٹشوز کو مناسب مقدار میں آکسیجن اور غذائی اجزا نہیں مل پاتے۔
جسمانی طور پر سست طرز زندگی کے نتیجے میں میٹابولزم کے افعال متاثر ہوتے ہیں، جس سے موٹاپے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
ورزش کرنے سے میٹابولزم بھی تیز ہوتا ہے، درحقیقت آپ جسمانی طور جتنے زیادہ متحرک ہوں گے، میٹابولزم اتنی زیادہ کیلوریز جلائے گا۔
اگر اکثر راتوں کو نیند پوری نہیں ہوتی تو یہ بھی ورزش نہ کرنے کی ایک نشانی ہے۔
دن میں جسمانی طور پر متحرک رہنے سے اچھی نیند کا حصول بھی ممکن ہوتا ہے۔
درحقیقت ورزش کرنے سے رات کو بستر پر لیٹنے کے بعد جلد سونے میں مدد ملتی ہے جبکہ نیند کا معیار بھی بہتر ہوتا ہے۔
ورزش کرنے سے جسم میں ایسے کیمیکلز کی سطح بڑھتی ہے جو یادداشت کے لیے اہم ہوتے ہیں۔
جسمانی سرگریوں سے دماغ کی جانب خون کی روانی بڑھتی ہے، جس سے مختلف دماغی افعال جیسے سوچنے، یادداشت اور فیصلہ سازی کو فائدہ ہوتا ہے۔
زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنے کی عادت سے امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ورزش نہ کرنے سے بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے جو کہ امراض قلب کا خطرہ بڑھانے والا اہم عنصر ہے۔
جسمانی سرگرمیوں سے دوری کے نتیجے میں جسم کے اندر بلڈ شوگر کی سطح میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
ورزش کو معمول بنانے سے ہمارے جسم کے لیے بلڈ گلوکوز کو کنٹرول میں رکھنا آسان ہو جاتا ہے اور ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
بہت زیادہ وقت تک بیٹھنے سے کمر کے مسلز، گردن اور ریڑھ کی ہڈی پر تناؤ بڑھتا ہے اور اگر کمر آگے جھکا کر بیٹھتے ہیں تو پھر بدترین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ہماری کمر کو زیادہ وقت بیٹھنا پسند نہیں تو ہر آدھے گھنٹے بعد ایک یا 2 منٹ کے لیے چہل قدمی کریں۔
ویسے تو سوچا جاتا ہے کہ زیادہ ورزش کرنے والے افراد کو بھوک بھی زیادہ لگتی ہے، مگر حقیقت بالکل مختلف ہے۔
درحقیقت ورزش جیسے چہل قدمی یا جاگنگ سے کھانے کی اشتہا کم ہوتی ہے کیونکہ جسم میں بھوک کا احساس دلانے والے ہارمونز کی سطح گھٹ جاتی ہے۔
تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنے والے افراد اکثر نزلہ زکام یا دیگر موسمی بیماریوں کے شکار ہو جاتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں جسمانی طور پر متحرک رہنے سے نزلہ زکام یا دیگر موسمی بیماریوں سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
اگر آپ کی جِلد کی رنگت ماند پڑتی جا رہی ہے تو یہ بھی ورزش سے دوری کی ایک نشانی ہے۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق معتدل ورزش سے خون کی گردش اور مدافعتی نظام بہتر ہوتا ہے، جس سے جِلد کی جگمگاہٹ بھی بڑھتی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔