Time 12 مئی ، 2024
بلاگ

آزادیِ فلسطین کی طرف اہم قدم

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو مکمل رکنیت دینے کی قرارداد دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی مگر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس ووٹنگ سے اقوام متحدہ میں صرف فلسطین کی مکمل رکن بننے کی اہلیت کو تسلیم کیا گیا ہے اور مکمل رکن بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ قرارداد کے حق میں143 اور مخالفت میں 9 ووٹ پڑے۔ امریکہ اور اسرائیل سمیت 25 ممالک نے ووٹ نہیں کاسٹ کیا۔

اگرچہ اس قراداد سے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت نہیں مل سکتی مگر اسی سال ستمبر میں کچھ اضافی حقوق اور مراعات ملیں گی۔ جس میں اسمبلی ہال میں اقوام متحدہ کے اراکین کے درمیان ایک نشست بھی شامل ہے مگر اس نشست پر بیٹھا ہوا فلسطینی نمائندہ ایوان میں ووٹ نہیں دے سکے گا فلسطین کے پاس اب بھی صرف مبصر کا درجہ ہے۔

اس بات کی اہمیت سےانکار نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں قرارداد کے حق میں ووٹ پڑے۔ اس سے صاف واضح ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا دبائو ناکام رہا۔ غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ کے سات ماہ بعد اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کیلئے فلسطینیوں کا دباؤ واضح طور محسوس ہو رہا ہے۔

ووٹنگ سے قبل، اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، آپ اور آپ کا ملک آنے والے سالوں میں آزادی ِفلسطین کیلئے کھڑا ہونے پر فخر محسوس کرے گا کہ اس نے اس تاریک گھڑی میں انصاف اور امن کا ساتھ دیا‘‘۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا کہ، بے شک اس ووٹ سے غزہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر یہ ایک علامتی فتح ہے اور یہ فلسطین کیلئے عالمی میدان میں اپنی حیثیت کے حصول کیلئے ایک اہم سنگ میل ہے۔

یہ قرارداد فلسطین کوصرف فلسطینیوں اور مشرق وسطیٰ سے متعلق ہی نہیں بلکہ تمام مسائل پر بات کرنے، ایجنڈے کے آئٹمز تجویز کرنے اور مباحثوں میں جواب دینے اور اسمبلی کی مرکزی کمیٹیوں میں خدمات انجام دینے کا حق اور اقوام متحدہ کی طرف سے بلائی جانے والی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کرنے کی بھی اجازت دیتی ہےمگرووٹ کے حق کے بغیر۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے پہلی بار 2011 میں اقوام متحدہ کی رکنیت کیلئے درخواست دی تھی۔ یہ ناکام ہو گئی تھی کہ فلسطینیوں کو سلامتی کونسل کے 15 میں سے نو ارکان کی حمایت چاہئے تھی جو نہیں مل سکی تھی ۔اس کے بعد وہ جنرل اسمبلی میں گئے اور دو تہائی سے زیادہ اکثریت سے کامیاب ہوئے اور اپنی حیثیت کو اقوام متحدہ کے مبصر سے بڑھا کر غیر رکن مبصر ریاست بنا دیا۔ اس نے فلسطینی علاقوں کیلئے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں بشمول بین الاقوامی فوجداری عدالت میں شمولیت کا دروازہ کھول دیا ۔اٹھارہ اپریل کو سلامتی کونسل کی ووٹنگ میں، فلسطینیوں کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کیلئے بہت زیادہ حمایت ملی۔ حق میں 12 ووٹ پڑے، برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیاتھا مگر امریکہ نے قرارداد کو ویٹو کر دیا۔

میرے خیال میں اس موجودہ قراردادکی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کیا جائےتو بہتر ہے کیونکہ یہ قرارداد اس وقت غزہ میں لوگوں کی تکالیف کو روکنے کیلئے ٹھوس طور پر کچھ نہیں کر سکتی۔ ایک تخمینہ ہےکہ غزہ میں سات ماہ سے جاری اسرائیلی فوجی دہشت گردی میں تقریباً 35000فلسطینیوں کی شہادت ہو چکی ہے۔ اسرائیل نے پرہجوم شہر رفح کے کچھ حصوں پر بمباری کی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جمعے کو خبردار کیا کہ غزہ کے جنوبی شہر پر اسرائیلی حملہ ایک بہت بڑی انسانی تباہی کا باعث بنے گا مگر لگ نہیں رہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کے عمل سے پیچھے ہٹے گا کیونکہ اسرائیل کے خیال میں بین الاقوامی عدالت انصاف انہیں فلسطینیوں کی نسل کشی کا مجرم قرار دے چکی ہے۔ اسرائیل اپنی سات دہائیوں کی بربریت میں شاید پہلی بار کٹہرے میں کھڑا ہوا ہے۔ بے شک جنوبی افریقہ کی طرف سے کیے گئے اس کیس نے اسرائیل کے بے لگام تکبر اور جنگی جنون کو نیست و نابود کر دیا ہےمگر وہ اب فلسطینیوں کی نسل کشی کو انتہا تک پہنچا دینا چاہتا ہے۔

اس قرارداد کی کہانی ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آ رہی۔ کئی سوال ایسے ہیں جن کاجواب نہیں مل رہا۔ مثال کے طور بھارت کے فوجی فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی افواج کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان کی وہاں موجودگی کے ثبوت حماس نےپیش کیے ہیں۔ دوسری طرف اس قرار داد کے حق میں بھارت نے ووٹ دیا ہے۔ یعنی اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں۔ اسرائیل کو اس قرار داد سے بظاہر بڑی پریشانی ہوئی ہے۔ اسرائیل کے اقوام متحدہ کے سفیر نے اس قرارداد کے کامیاب ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے ’’کہ اقوام متحدہ اب اپنی صفوں میں ایک ’’دہشت گرد ریاست‘‘ کا خیرمقدم کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی بنیاد تو اس مشن کے ساتھ رکھی گئی تھی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ نازیوں کی طرح کا ظلم دوبارہ کبھی سر نہ اٹھائے مگر اس کے بالکل برعکس ہوا ہے۔ اقوام متحدہ فلسطینی دہشت گرد ریاست کے قیام کو آگے بڑھا رہی ہے جس کی قیادت ہمارے دور کا ہٹلر کرے گا۔‘‘ اگر واقعتاً اسرائیل کو اس درجہ تکلیف ہوئی ہے تو پھر بھارت نے کیسے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ امریکہ نے اسے ویٹو کیوں نہیں کیا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔