Time 18 جون ، 2024
صحت و سائنس

برطانیہ میں ای کولی بیکٹریا کے درجنوں کیسز رپورٹ

برطانیہ میں ای کولی بیکٹریا کے درجنوں کیسز رپورٹ
بیماری کے پھیلاؤ کی درست وجہ ابھی معلوم نہیں ہو سکی / فوٹو بشکریہ اسکائی نیوز

برطانیہ میں ای کولی کے 200 سے زائد کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے کم از کم 67 مریضوں کو اسپتالوں میں داخل کیا گیا ہے۔

یو کے ہیلتھ سکیورٹی ایجنسی (یو کے ایچ ایس اے) کی جانب سے انتباہ کیا گیا ہے کہ کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

زیادہ تر کیسز نوجوانوں میں سامنے آئے ہیں مگر چھوٹے بچے اور بزرگ بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔

ای کولی ایک ایسا بیکٹریا ہے جو آنتوں کو متاثر کرتا ہے اور فوڈ پوائزننگ کا شکار بنا دیتا ہے۔

یو کے ایچ ایس اے کے مطابق عموماً ہر سال ای کولی کے ڈیڑھ ہزار کیسز برطانیہ میں سامنے آتے ہیں، مگر حالیہ کیسز کی لہر کی وجہ ایک ہی ہے۔

یو کے ایچ ایس اے کا ماننا ہے کہ قومی سطح پر غذائی اشیا کی تقسیم ان کیسز کا باعث بنی ہے۔

11 جون تک انگلینڈ میں ای کولی کے 147 مریض سامنے آئے، ویلز میں 27، اسکاٹ لینڈ میں 35 جبکہ شمالی آئرلینڈ میں 2 افراد اس بیماری کے شکار ہوئے۔

14 جون کو برطانیہ کی سپر مارکیٹس کو سینڈوچ فراہم کرنے والی 2 کمپنیوں نے اپنی پراڈکٹس کو ای کولی کے خطرے کے باعث واپس طلب کرلیا۔

اسی طرح 17 جون کو ایک اور کمپنی کی جانب سے مختلف غذائی اشیا کو واپس طلب کیا گیا۔

تینوں کمپنیوں کی جانب سے جاری بیانات میں کہا گیا کہ احتیاطی طور پر یہ اقدام کیا گیا جبکہ فوڈ اسٹینڈرڈ ایجنسی کی جانب سے ای کولی کیسز کی حالیہ لہر کی وجہ جاننے کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہے۔

یو کے ایچ ایس اے کی جانب سے لوگوں پر زور دیا گیا ہے کہ کمپنیوں کی جانب سے جن پراڈکٹس کو واپس طلب کیا گیا ہے، اگر وہ ان کے پاس ہیں تو انہیں کھانے سے گریز کریں۔

ای کولی کے زیادہ تر کیسز کچے یا ادھ پکے گوشت، کچے دودھ یا آلودہ سبزیوں کے استعمال کے باعث سامنے آتے ہیں۔

مگر یہ بیکٹریا متاثرہ فرد کے قریب رہنے والوں میں بھی منتقل ہوسکتا ہے۔

پیٹ میں مروڑ اور ہیضہ ای کولی کی بنیادی علامات ہیں مگر کئی بار مریضوں میں کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔

اگر ای کولی کا علاج نہ کرایا جائے تو کچھ مریضوں کے گردوں کے افعال تھم سکتے ہیں جس سے موت کا خطرہ بڑھتا ہے۔

بچوں، معمر افراد اور پہلے سے کسی بیماری کے شکار افراد کے لیے ای کولی سے موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ابھی ای کولی کا کوئی باقاعدہ علاج موجود نہیں اور عموماً مریض ایک ہفتے میں خود ٹھیک ہو جاتے ہیں، لیکن انہیں زیادہ سے زیادہ پانی پینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

مزید خبریں :