16 ستمبر ، 2024
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارت دفاع سے سویلین کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کا طریقہ کار طلب کر لیا اور بانی پی ٹی آئی کا ملٹری کورٹ ٹرائل ہو گا یا نہیں؟ اس پر بھی وفاقی حکومت سے واضح موقف مانگ لیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے بانی پی ٹی آئی کی ممکنہ ملٹری حراست اور ملٹری ٹرائل کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے پوچھا ملٹری حراست میں دینا ہو تو طریقہ کیا ہوتا ہے؟ سیاست دانوں اور فوجی افسر کے بیانات کی خبریں ریکارڈ پر لائے گئے ہیں، اگر بیانات کسی افسر کی طرف سے آئیں تو وہ سنجیدہ ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا وزارتِ دفاع کے پاس آج دن تک ملٹری حراست و ٹرائل کی کوئی اطلاع نہیں، وزارتِ دفاع کی طرف سے بیان دے رہا ہوں کہ ایسی کوئی چیز ابھی نہیں آئی، اگر کوئی درخواست آتی ہے تو پھر بھی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پٹیشنر کے وکیل کو مخاطب کر کے کہا آپ کو نہیں لگتا کہ آپکی درخواست قبل از وقت ہے؟ اگر جواب آتا کہ ہاں ملٹری ٹرائل ہونے جا رہا ہے تو پھر بات آگے بڑھتی، عدالت آپ کی بےچینی سمجھتی ہے ہماری حدود کو بھی سمجھیں، میرے پاس اس کیس میں آگے بڑھنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔
وزارت دفاع کے نمائندے بریگیڈیئر ریٹائرڈ فلک ناز نے کہا انہوں نے فیلڈ جنرل کورٹ میں 50 سے زائد کیسز کیے ہیں۔
عدالت نے پوچھا آپ کیسے سویلینز کو ملٹری کورٹس میں لے جاتے ہیں ؟وزارت دفاع کے نمائندے نے بتایا کہ متعلقہ مجسٹریٹ کو ملٹری اتھارٹی آگاہ کرتی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟ اس حوالے سے طریقہ کار فراہم کردیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے اگر تو ملٹری ٹرائل سے پہلے بانی پی ٹی آئی کو نوٹس دیا جاتا ہے تو پھر یہ کیس نمٹا دیتے ہیں، اگر آپ کہتے ہیں کہ بغیر نوٹس آسمانی بجلی کی طرح آنا ہے تو پھر ایسے نہیں ہو گا، نیب کے قانون کو سپریم کورٹ نے ڈریکونین قرار دیا لیکن اس میں بھی طریقہ کار موجود ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھاکہ طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے سول عدالت چارج فریم کرے گی، ٹرائل کورٹ اگر کہے کہ کیس ملٹری کورٹ کو بھیجنا ہے تو پھر نوٹس دے کر بھیجا جا سکتا ہے۔ حکومت کی طرف سے کوئی واضح جواب نہیں آ رہا، میں آپ کو وقت دیتا ہوں، اس متعلق ہدایات لے کر آ جائیں۔
کیس کی مزید سماعت 24 ستمبر کو ہو گی۔