19 فروری ، 2013
اسلام آباد… سپریم کورٹ میں ہزارہ برادری کے قتل عام از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان اور ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ یہ اتنا بڑا واقعہ ہے جس کی وجہ سے سارا ملک مفلوج ہے۔ کیا حکومت کی یہی کارکردگی ہے۔ آرٹیکل 9 پر عمل درآمد نہیں ہورہا اور حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ایک ماہ پہلے بھی ایسا ہی واقعہ ہوا تھا۔ چیف جسٹس کا ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان سے استفسار کیا کہ پہلے بھی دھماکہ ہوا، کتنے لوگ پکڑے گئے جس کے جواب میں ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کا کہنا تھا کہ آج ایک کارروائی ہوئی ہے ، جس میں 4 افراد مارے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں شیعہ برادری سراپا احتجاج ہے، زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔وفاقی حکومت کو بلوچستان میں فوج بلانے کا حکم نہیں دیں گے عدالت اپنی حدود کراس نہیں کرے گی۔ طارق اسد ایڈوکیٹ نے کہا کہ صوبے میں آئین کا آرٹیکل 245 لاگو کیا جائے، جمہورتی بچاتے رہے تو زندگیاں نہیں بچیں گی۔ چیف جسٹس نے کہا ہم صرف بنیادی حقوق کا تحفظ کا کہیں گے۔ جسٹس عظمت سعید کے ریمارکس صوبائی حکومت سو رہی ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ وفاقی حکومت نے تو صوبائی حکو مت کو ختم کردیا۔ چیف جسٹس کے ریمارکس دیئے کہ کیا حکومت ختم ہونے سے مسائل کے حل ملتے ہیں۔ اٹارنی جنرل کے بیان ''واقعہ کی ایف آئی آر کٹ گئی ہے''جس پرسپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ وہ ایف آئی آر کس طرح کٹی ہے، ہمیں پتہ ہے۔آپ سمجھتے ہیں کہ شاہراہ دستور پر چار پانچ عمارتوں میں بیٹھ کر حکومت ہوتی ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس واقعہ کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لشکر جھنگوی ، لشکر جھنگوی کیا ہے ،جائیں اور انہیں جا کر پکڑیں، اب تک کلین اپ آپریشن کر دینا چاہتے تھا۔ شکر ہے کہ ملک میں فرقہ واریت نہیں ہوئی،اس ملک کے لوگ سمجھدار ہیں۔