Time 24 اکتوبر ، 2024
پاکستان

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اپنے عدالتی کیریئر میں کئی تاریخی فیصلے دیے

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اپنے عدالتی کیریئر میں کئی تاریخی فیصلے دیے
فوٹو: فائل

13 ماہ 8 دن چیف جسٹس پاکستان رہنے والے قاضی فائزعیسیٰ نے اپنے کیریئر میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے،کئی تاریخی فیصلے دیے اور  پارلیمنٹ کی دعوت پر ایوان میں کھڑے ہوکر  آئین کی حمایت اور  بالادستی پر تقریر کی، قاضی فائز عیسیٰ ہی پہلے جج ہیں جنہوں نے اپنے خلاف ریفرنس کے بعد اپنے تمام اثاثے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر آویزاں کردیے، سپریم کورٹ کی سماعتیں براہ راست نشر کرنے کی ابتدا بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ہوئی، 25 اکتوبر کو  پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس  سبکدوش ہو رہے ہیں۔

26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہونے والے قاضی فائزعیسیٰ نے ابتدائی تعلیم بلوچستان میں ہی حاصل کی، پھر کراچی میں اے اور  اولیول کے بعد بی اے آنرز ان لاء کی ڈگری حاصل کی، 1985 میں ہائی کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے پریکٹس شروع کی اور1998 میں سپریم کورٹ کے وکیل کے طورپر وکالت کا آغاز کیا۔

 قاضی فائزعیسیٰ 5 اگست2009 کوبلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے، 5 ستمبر2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقررہوئے اور 17 ستمبر2023 کو 29 ویں چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھایا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اعلیٰ عدلیہ میں مختلف مقدمات کی سماعت کی، سابق صدر اور  آمر جنرل پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کی سزا برقرار  رکھنے کا فیصلہ بھی سنایا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق کیس کا فیصلہ سنایا جب کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سربراہی بھی کی، قاضی فائزعیسیٰ نے اپنے عدالتی کیریئر میں کئی تاریخی فیصلے دیے جو مثال بن گئے۔

8 اگست 2016 کو کوئٹہ میں ہونے والا خودکش حملہ جس میں 56 وکلا سمیت 74 افراد جاں بحق ہوئے، اس کی انکوائری کے لیے سپریم کورٹ نے ایک رکنی کمیشن بنایا اور وہ رکن تھے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ، جنہوں نے سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کی دوسری برسی یعنی 16 دسمبر 2016 کو اپنی رپورٹ پیش کی، جس میں قاضی فائزعیسیٰ نے ملک کے طاقتور  ترین وزیرداخلہ چوہدری نثار  اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کو خامیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا، 86 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں 45 حکومتی اہلکاروں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، رپورٹ میں وزیرداخلہ چوہدری نثار کی کالعدم تنظیموں کے سربراہان سے ملاقات اور  ان کے مطالبات سننے کے معاملے پر بھی تنقید شامل تھی۔

مذہبی جماعت نے 5 نومبر 2017 کو راولپنڈی اسلام آباد کے سنگم فیض آباد پر دھرنا دیا جو 23 روز جاری رہا، اس دوران وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی بری طرح متاثر رہے، اس دھرنے کے خلاف سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے جسٹس فائزعیسیٰ اور جسٹس مشیرعالم پر مشتمل دو رکنی بینچ بنایا جس نے 7 فروری 2019 کو فیصلہ سنایا، جسٹس فائزعیسیٰ نے کیس کا فیصلہ تحریر کیا، فیصلے میں اُس وقت کی حکومت، خفیہ ایجنسیوں  اور  پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں، تمام حساس ادارے اپنی حدود سے تجاوزنہ کریں اور ان کی حدود طے کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے، آئین پاک فوج کو سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بننے سے روکتا ہے اور فوج کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کی حمایت نہیں کرسکتی، وزارت دفاع اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان حلف کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔

سابق صدرآصف زرداری نے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائرکیا، جس پر 11 سال بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 9 رکنی لارجربینچ بنایا، 8 سماعتیں کیں اور متفقہ فیصلہ سنایا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ  ذوالفقارعلی بھٹو کو آئین کے مطابق فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، بھٹو کے ٹرائل میں بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا، تاریخ میں ایسے متعدد مقدمات ہیں جن میں درست فیصلے نہیں ہوئے، ماضی کی غلطیوں کے ازالے کے بغیر درست سمت میں نہیں جاسکتے، ہم ججز پابند ہیں کہ قانون کے مطابق فیصلہ کریں، جب تک غلطیاں تسلیم نہ کریں خود کو درست نہیں کرسکتے، 45 سال بعد انصاف ملنے پر سپریم کورٹ میں موجود چیئرمین پیپلزپارٹی اور ذوالفقارعلی بھٹو کے نواسے  بلاول بھٹو زرداری آبدیدہ ہوگئے۔

جسٹس عیسیٰ نے خواتین کو ان کے وراثتی حقوق سے محروم کرنے کے حوالے سے بھی اہم فیصلے کیے اور خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لیے مستقل آواز اٹھائی۔

مزید خبریں :