02 دسمبر ، 2024
ایران کے نائب صدر برائے اسٹرٹیجک امور محمد جواد ظریف نے امریکا اور مغربی ممالک کے نام کھلا خط لکھا ہے۔
خط میں انہوں نے کہا ہے کہ 30 جولائی کو جب صدر مسعود پزشکیان نے عہدے کا حلف لیا تھا تو ابھی چند ہی گھنٹے گزرے تھے کہ صدارتی کمپلیکس کے قریب مہمان خانے میں قیام پزیر فلسطینی اتھارٹی کے سابق وزیراعظم اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے شہید کردیا تھا، یہ اس بات کا اظہار بھی تھا کہ صدر پزشکیان کو کن چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
نائب صدر جواد ظریف نے کہا کہ صدر پزشکیان آگاہ ہیں کہ دنیا پوسٹ پولر دور میں داخل ہورہی ہے اور یہ کہ اس دور میں مقابلہ اور تعاون دونوں ہی ایک ساتھ کیے جاسکتے ہیں، جواد ظریف نے کہا کہ پزشکیان نے لچک دار خارجہ پالیسی اپنائی ہے جس میں تعمیری ڈائیلاگ کو ترجیح دی ہے۔
ایران کے نائب صدر نے زور دیا کہ مسعود پزشکیان مشرق وسطی میں استحکام اور معاشی ترقی چاہتےہیں، پڑوسی عرب ملکوں سے تعاون اور اتحادیوں سے تعلقات مضبوط کرنے کے خواہاں ہیں، ساتھ ہی وہ مغربی ممالک سے بھی تعمیری طورپر انگیجمنٹ چاہتے ہیں۔
جواد ظریف کا کہنا تھا کہ صدر مسعود پزشکیان نیا صدر چننے والے امریکا سے بھی تناؤ مینیج کرنے کے لیے تیار ہیں اور وہ امریکا سے نیوکلیر ڈیل اور دیگر امور پر برابری کی بنیاد پر مذاکرات کی امید رکھتے ہیں۔
جواد ظریف نے یاددہانی کرائی کہ 20 برس کی اقتصادی پابندیوں کے تناظر میں امریکا، مغرب کو جاننا چاہیے کہ ایران دباؤ کا شکار نہیں ہوتا بلکہ امریکا اورمغرب کے بڑھتے ہوئے ایسے اقدامات مسلسل بیک فائر ہوئے ہیں۔
جواد ظریف نے کہا کہ ایرانی نیوکلیئر سائنسدان محسن فخری زادے کے قتل پر ایران نے نیوکلیئرپروگرام تیز کرنے اور عالمی مانیٹرنگ کم کرنے کا قانون بنایا تھا۔ 2018 میں جب صدرٹرمپ نے ایران نیوکلیئر ڈیل ختم کی تو اس کے بعد ایرانی سینیٹری فیوجزکی تعداد بھی بڑھائی گئی جبکہ افزودگی کاعمل بھی 3.5 فیصد سے 60 فیصد تک پہنچا دیا گیا۔
جواد ظریف نے کہا کہ ایران کے نیوکلیئرپروگرام میں اس تیزی کا الزام صدرٹرمپ پر لگایا جانا چاہیے، مغرب ایران پر دباؤ ڈالنے کے بجائے مثبت حل نکالنے کےلیےاقدام کرے، ایران نیوکلیئر ڈیل ایسے بحال کی جائے کہ ایران کو معاشی فوائد ملیں، نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتصادی اقدامات کیے تو تہران اور واشنگٹن کے مفاد میں ایران ڈائیلاگ کے لیے تیار ہے۔
نائب صدر جواد ظریف نے خبردار کیا کہ ابراہام معاہدے جیسی حکمت عملی سے ایران اور عرب ممالک کو لڑانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی تاہم علاقائی استحکام میں ایران کو لازم حصہ بنایا گیا تو تہران اور واشنگٹن تنازعات حل کرسکتےہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل بھی جان لے کہ جن فلسطینیوں کے پاس کھونےکے لیےکچھ نہ ہو انہیں شکست نہیں دی جاسکتی، فلسطینیوں کو حق خود مختاری ملنے تک حماس اور حزب اللہ قائم رہیں گی۔
جواد ظریف نے کہا کہ فلسطینیوں کو جو حل منظور ہو وہ ایران کو قابل قبول ہے تاہم دریائےاردن سے بحیرہ روم کے درمیان رہنےوالوں اور مہاجرین کو نظام حکومت چننے کا موقع دیا جانا چاہیے۔
جواد ظریف نے کہا کہ ایران واضح کرچکا ہے کہ وہ غیرمنطقی مطالبات کو تسلیم نہیں کرےگا، وہ قومی مفاد کے تحٖفظ کے لیے ڈٹا رہے گا، اس لیے یہ استحکام کے لیے تاریخی موقع ہے جسے دنیا کو گنوانا نہیں کرنا چاہیے، کم سے کم تہران استحکام کا یہ موقع یقیناً نہیں گنوائے گا۔
جواد ظریف کا کہنا تھا کہ آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت میں ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ بیرونی جارحیت سے دفاع کرنا جانتا ہے تاہم نئی انتظامیہ کے زیر اثر ایران پڑوسی ممالک سے تعلقات میں بہتری چاہتا ہے، ایران ایک ایسا ریجنل آڈربنانا چاہتا ہے جس میں استحکام، دولت اور سکیورٹی کو فروغ ملے، انرجی سکیورٹی، نیویگیشن کی آزادی بڑھے اور بین المذاہب ڈائیلاگ بڑھے۔
جواد ظریف نے کہا کہ ایران ایسا علاقائی اہتمام چاہتا ہے جس سے خلیج فارس پر بیرونی طاقتوں کا انحصار کم ہو۔ ایران اوراسکے پڑوسی علاقائی مضبوطی کیلیے ہلسنکی طرزعمل کو اپنا سکتےہیں،یہ ہلسننکی عمل یورپ میں سیکیورٹی اورتعاون کی تنظیم بنانے کی بنیاد بنا تھا اور قابل عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران عراق جنگ ختم کرانےکے لیے یو این سیکرٹری جنرل کو دیا گیا مینڈیٹ بھی قابل عمل ہے، یہ وقت ہے کہ ایران اور عرب دنیا اپنے اختلافات ختم کرے، اس ضمن میں تہران کا فلسطینی مزاحمت سے تعاون، ایران-عرب ممالک تعاون کا آغاز کرسکتا ہے۔
آخر میں جواد ظریف نے کہا کہ ایران بااعتماد ہے کہ وہ دفاع کے لیے لڑسکتا ہے مگر وہ امن چاہتا ہے، باہمی احترام اور برابری کی بنیاد ہو تو ایران بات چیت کے لیے تیار ہے۔
جواد ظریف نے امریکا اور مغربی ممالک کو پیغام دیا ہے کہ نئے آغاز کے لیے یہ موقع ضائع نہ کریں۔