23 دسمبر ، 2024
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سمندر پار پاکستانیز کے اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) بیورو آف امیگریشن محمد طبیب نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات جانے کا کوئی کیس پولیس تصدیق کے بغیر نہیں ہوگا ، تمام ایجنٹس کو ہدایت کردی گئی ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سمندر پار پاکستانیز کا ذیشان خانزادہ کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) بیورو آف امیگریشن محمد طبیب نے بریفنگ دی۔
انہوں نے بتایاکہ متحدہ عرب امارات جانے کا اب کوئی بھی کیس پولیس ویریفکیشن کے بغیر نہیں ہو گا، تمام ایجنٹس کو یہ ہدایت کر دی گئی ہے۔
سینیٹر شہادت اعوان نے استفسار کیا کہ یو اے ای نے پاکستانیوں پر پابندی لگائی تھی؟ آپ نے گزشتہ اجلاس میں ہمیں کہا تھا کہ یو اے ای نے ہم پر پابندی عائد کی ہے یا تو آپ کہی دیں کہ یو اے ای کی پاکستانیوں پر کوئی پابندی نہیں، اگر یو اے ای کی پاکستانیوں پر سے پابندی ہٹ چکی ہے تو ہمیں بتا دیں، کیا ہم نے غلط سمجھا تھا کہ یو اے ای والے ہمیں ویزا نہیں دے رہے؟
سیکرٹری سمندر پار پاکستانیز ارشد محمود نے کہا کہ کوشش ہے زیادہ سے زیادہ افراد یو اے ای جائیں، یو اے ای والوں کے ساتھ کھل کر بات کی، ہمارے بندے یو اے ای جا رہے ہیں اور زر مبادلہ بھی آ رہا ہے، یو اے ای کا پاکستانیوں کیلئے 16 لاکھ کا کوٹہ تھا، اس وقت ساڑھے 18 لاکھ پاکستانی یو اے ای میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پابندی ہو تو کوئی بندہ یو اے ای نہ جائے، ہمارے ساڑھے 65 ہزار افراد اس سال امارات گئے ہیں، ہمارے افراد یو اے ای جا رہے ہیں، ان کی جانب سے پاکستانیوں پر کہیں پابندی کا لیٹر نہیں ہے۔
سیکرٹری ارشد محمود نے کہا کہ restriction کا مطلب انکار نہیں ہے، ہمارے افراد یو اے ای جا رہے ہیں، ہماری لیبر اسکلڈ ہو کر جائے تو اس کیلئے یو اے ای میں زیادہ مواقع ہیں، ہمارے لوگوں کی یو اے ای جانے کی خواہش زیادہ ہے لیکن اب ان اسکلڈ لوگوں کو یو اے ای نے بلانا کم کیا ہے، اس کا زرمبادلہ پر بھی ایک دو سال میں اثر پڑے گا۔
سینیٹر ناصر بٹ نے کہا کہ ہمیں تو یہی معلوم ہوا کہ یو اے ای پاکستانیوں کو ویزا نہیں دے رہا، یہ بڑا شرمناک ہے کہ یو اے ای میں پاکستانیوں کو وزٹ ویزا نہیں مل رہا۔
ارشد محمود نے کہا کہ وزارت سمندر پار پاکستانیز ملازمت کے ویزے کو دیکھتی ہے، وزٹ ویزا دفتر خارجہ کا معاملہ ہے، ان اسکلڈ لیبر کو یو اے ای میں وہاں داخلہ نہیں مل رہا، 7 لاکھ بندہ اس سال ہمارا دنیا کے مختلف ممالک میں جا رہا ہے۔