Time 01 جنوری ، 2025
بلاگ

فوجی عدالتوں سے سزائیں آئینی ہیں

فوجی عدالتوں کی طرف سے سزاؤں کے بعد چند مغربی ممالک اور بعض پاکستانی حلقوں میں اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں، یہ اعتراضات کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ فوجی عدالتیں آئین کا حصہ ہیں اور ملک کی سب بڑی جماعتوں نے مل کر ان فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی تھی۔ 

بعض لوگ سویلینز کے فوجی ٹرائل پر بھی ناراض ہورہے ہیں حالانکہ فوجی عدالتوں میں بھیجے گئے مقدمات کا سویلینز یا باوردی ہونے سے تعلق نہیں جرم کی نوعیت سے تعلق ہے۔ فوجی سزاؤں کی زد میں ریٹائرڈ بریگیڈئر بھی آئے ہیں اور سویلین بھی۔ ان سزاؤں میں ہر فرد کو اس کے جرم کی نوعیت کے مطابق سزا سنائی گئی ہے امریکہ اور برطانیہ میں ان سزاؤں پر اعتراضات کئے گئے ہیں مگر نائن الیون کے افسوسناک واقعہ پر امریکہ کا ردعمل کیا تھا گوانتا ناموبے جیل میں کون سے آئین اور قانون کا اطلاق ہوتا تھا۔ 9مئی اور 26نومبر پاکستان کے نائن الیون تھے جن میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کا کھلواڑ نہ کرسکے۔

کئی آوازیں یہ اعتراض بھی کر رہی ہیں کہ سویلینز کا ٹرائل سویلین عدالتوں میں اور فوجیوں کا فوجی عدالتوں میں ہونا چاہیے مگر اس وقت مسئلہ یہ درپیش ہے کہ پاکستان کا کریمینل جسٹس سسٹم بہت ہی کمزور ہے وہاں سے کسی کو سزا ملنا ہی مشکل ہے حد تو یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کے ملزم بھی رہائی پا گئے حالانکہ ان کے خلاف سائنسی بنیادوں پر عالمی سطح پر تفتیش ہوئی تھی۔

جب تک زیریں عدالتوں کا نظام پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہوتا اس وقت تک طاقتور ملزموں کو سزا ملنا ناممکن ہے اسی لئے ساری سیاسی جماعتوں نے مل کر سویلینز کے ملٹری ٹرائل کی خود اجازت دی تھی، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات ملکی سالمیت کی ضرورت ہوتے ہیں اور یہ قدم تو خالصتاً جمہوری طریقے سے آئین اور قانون میں ترمیم کرکے اٹھایا گیا تھا ، تحریک انصاف یا مغربی دنیا اس پر اعتراض کیسے کرسکتی ہے؟ خود تحریک انصاف کی حکومت کے دوران بھی سویلینز کے ملٹری ٹرائل ہوتے رہے اور تحریک انصاف ان کا دفاع کرتی رہی۔

 آج بھی تحریک انصاف کے صرف وہ لوگ جو 9 مئی کے سانحے میں ذاتی اور عملی طور پر ملوث تھے اور ان کے اس جرم کا ویڈیو ثبوت موجود تھا انہیں ہی سزائیں ملی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ اس حالیہ قانون کے بننے سے پہلے، ایوب خان کے دور میں فوجی عدالتوں کی سزاؤں کے خلاف اپیل کسی سویلین کورٹ میں نہیں کی جاسکتی تھی، اب تو اس قانون میں بہتری لائی گئی ہے اور سزا یافتہ افراد ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں اپیل کرکے ریلیف پا سکتے ہیں۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سیاسی کارکنوں کے خلاف فوجی سزاؤں کی ریت نہ ڈالی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے کارکن گھروں اور فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہوئے، وہاں آگ لگائی، یہ سیاسی طریقہ نہیں دہشت گردی تھی اس لئے اسکی سزائیں بھی دہشت گردی والی ہی ہونی چاہئیں۔الغرض فوجی عدالتیں وقت کی ضرورت ہیں، اگر دھرنے اور گھروں پر حملوں کی اجازت دے دی جائے اور ملزم سویلین عدالتوں سے رہائی پا جائے تو نہ ریاست رہے گی اور نہ امن و امان ۔ فوجی عدالتوں کی سزا سے سب کوعبرت حاصل ہوگی اور مستقبل میں ہجوم اور محاصرے کے ذریعے حکومتیں تبدیل کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

گزشتہ دنوں پاکستان ملٹری ایکٹ 1952ء کے تحت زیر سماعت مقدمات جن میں ٹرائل تو مکمل ہو چکا تھا لیکن سزا و جزا کا فیصلہ سپریم کورٹ سے جاری حکم امتناعی کی وجہ سے زیر التوا تھا۔ سپریم کورٹ میں دونوں فریقین کی رضا مندی سے حکم امتناعی خارج ہوا اور پاکستان ملٹری ایکٹ 1952ء ،جو پارلیمینٹ سے منظور شدہ قانون ہے، کے تحت ملٹری کورٹس نے قانون کے مطابق محفوظ فیصلے سنائے گئے۔

 یہ فیصلے قانون اور آئین کے مطابق SUBJECT TO JUDICIAL REVIEW OF HIGH COURT & SUPREME COURT ہیں لیکن بعض حلقے اندرون ملک و بیرون ملک خاص طور پر امریکہ اور بعض یورپی ممالک اعتراضات اٹھائے ہوئے ہیں اور تاثر ایسے نمایاں کیا جا رہا ہے کہ شاید ان ملزمان پر الزامات (سرزد جرم کی نوعیت) تو ایسی تھی کہ ان کا ٹرائل کسی عام فوجداری عدالت میں ہونا چاہیے تھا لیکن ان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیا گیا ہے بلکہ انکے ٹرائل کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔یہ تاثر درست نہیں۔پاکستان ملٹری ایکٹ1952ءجوVALID LAW OF LAND ہے کی

SECTION 2(1) CLAUSE D-ANY PERSON (CIVILIAN) WHO SEDUCES A MEMBER OF THE ARMED FORCES FROM HIS DUTY ALLEGIANCE TO THE GOVORNMENT AND/ OR COMMITS AND OFFENCE UNDER THE OFFICIAL

SECRET ACT IN RELATION TO MILITARY INSTALLATIONS BECOMES SUBJECT TO ARMY ACT

(2) OFFENCES UNDER OFFICIAL SECRET ACT INCLUDES ATTACKING PROHIBITED PLACES INCLUDING MILITARY INSTALLATIONS

آرمی ایکٹ کی دفعہ 2 (1) d (2) کے تحت ملزمان HAVE BECOMES SUBJECT OF ARMY ACT ٹھہرے ان کا ٹرائل قانون اور آئین کے مطابق آرمی ایکٹ کے SECTION 59 (4) کے تحت ہونا ایک آئینی تقاضا تھا اور ہے۔

 ایسے ٹرائل 1952 ءسے ہوتے آ رہے ہیں۔یہ ریکارڈ اور واضح رہے کہ اوپر درج دفعات ملٹری ایکٹ 1952ءکو عدالت میں چیلنج کیا گیا عدالت عظمیٰ سپریم کورٹ نے ان دفعات اور ملٹری ایکٹ کو آئین کے مطابق قرار دیا۔ PLD2015 SC401اس قانون کی موجودگی میں اگر کوئی ملزم قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے جرم کا ارتکاب کرے گا تو اسکا ٹرائل ملٹری ایکٹ کے تحت نہیں ہوگا تو کیا کسٹم ایکٹ یا ڈرگ کورٹس میں ہوگا۔ کیا یہ ملزمان جن کا ٹرائل ہوا ہے ملٹری Installationپر حملہ آور نہیں ہوئے۔ PTI کا 9مئی کے بعد فوری ردعمل یہ تھا کہ یہ ملزمان Planted ہیں اور انہیں اس مقصد کیلئے HIRE کیا گیا تھا اور FALSE FLAG آپریشن تھا تو پھر سزاؤں پر یہ واویلا کیوں؟۔

بیرون ملک بنیادی انسانی حقوق کی آڑ میں اپنے صیہونی اور مسلم ایٹمی قوت پاکستان کے خلاف سازشی ایجنڈے کے زیر اثر بعض دانستہ اور کچھ نادانستہ صاحبان سے سوال ہے کہ 9/11کے بعد پوری دنیا پر چڑھائی کرتے ہوئے کیا انسانی بنیادی حقوق اور عالمی قوانین کو خاطر میں رکھا گیاتھا۔

 گوانتا نامو بے جیل کن آئینی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے قائم کی گئی، بلاشبہ 9مئی پاکستان کیلئے 9/11ہی تھے۔ ایسے واقعات اگر امریکہ یا UK میں وقوع پذیر ہوتے تو شاید ملزمان کیلئے گوانتا ناموبے جیل دوبارہ آباد ہوتی۔ 50ہزار بے گناہ معصوم فلسطینی/ غزہ کے شہریوں کے بے رحمانہ قتل عام پر جن PERSONALITIES کو کبھی مذمت/ افسوس کی TWEETکرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی اب ان کا ضمیر ملکی آئین اور قانون کے مطابق کسی کی رہائی اورسزاؤں پر اس قدر بے چین کیوں ہے۔ 

ہمیں بلاشبہ اپنے فوجداری عدالتی نظام کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا جو انصاف کے تقاضوں پر پورا اترے تاکہ مخصوص قوانین اور عدالتی نظام کی جگہ ایک ہی نظام احاطہ کرے۔ لیکن اس انتظار میں ایسے ملزمان اور جرائم ،جو قومی وحدت کے خلاف سازش ہوں ،سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔

(صاحب تحریر وزیر اعظم کے وفاقی مشیر برائے سیاسی امور ہیں )


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔