01 مارچ ، 2013
فیصل آباد…فیصل آباد میں اشتہاری بورڈ سکینڈل کیس میں بڑے پیمانے پر کرپشن کا انکشاف ہوا ہے ابتدائی تحقیقات میں چوبیس کروڑ روپے کی کرپشن سامنے آنے پر انکوائری کمیٹی نے سرکاری ملزمان کے خلاف کیس نیب کو بجھوانے کی سفارش کی ہے ۔فیصل آباد میں عمارتوں سڑکوں چوراہوں پر اشہاری بورڈز کی بھر مار اور اور انہیں لگانے کے لیے بنائے گے قواتین کی دیھجیاں بکھیرنے کی کہانی سامنے آ گئی ہے اس سلسلے میں جب شہریوں نے شور مچایا تو کمشنر فیصل آباد کو معاملے کی انکوائری کروانا پڑی جس میں انکشاف ہوا کرپشن کی کہانی دوہزار چھ میں شروع ہوئی اس عرصے میں تعینات رہنے والے سرکاری ملازمین نے اعلیٰ حکام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر سرکاری خزانے کو کروڑوں کا نعقصان پہنچایا اور شہر میں بغیر کسی این اوسی بورڈ لگانے دئیے گئے اور خوب رشوت وصول کی گی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے ابتدائی طور پر چوبیس کروڑ کی خودربرد پکڑنے کے بعدکھلے عام کرپشن کی لوٹ مار کو دیکھتے ہوئے اس معاملے کو فوری طور پر نیب کے حوالے کرنے کی سفارش کی ہے تحقیقاتی کمیٹی نے ملوث تمام سرکاری افسران کے خلاف فوجداری مقدمات قائم کرنے کی بھی تجویز دی ہے تاہم ڈی سی او فیصل آباد کہتے ہیں کہ کرپشن ہوئی ہے اور ابھی مزید تحقیقات بھی ہو رہی ہیں ۔ڈی سی او امین چوہدری کے مطابق جو رپورٹ آئی جو میں نے دیکھی اس میں جو رقم اکھٹی ہوئی نجی بورڈز سے وہ سرکاری خزانے میں جمع نہیں ہوئی ۔دوسری طرف اشتہاری بورڈز لگانے والے ایڈوٹائیزرز نے انکشاف کیا ہے کہ بہت سے سرکاری ملازمین نے اپنے عزیزوں کی آڑ میں خودساختہ اشتہاری ایجنسیاں بنا لی ہیں جنہوں نے شہر میں قواعد و ضوابط سے ہٹ کر وہ ایسے اشتہاری بورڈز لگائے ہیں جو کسی بھی وقت حادثات کا باعث بن سکتے ہیں لیکن ان کوکسی نے نہیں پوچھا جس کے بعد شہر میں رشوت دو اور کہیں بھی اشتہاری بورڈ لگا لو کی پالیسی چل پڑی اور چھ سال سے شہر میں یہی ہو رہا ہے اور اب ہر ایڈورٹائزر رشوت دے رہا ہے رقم سرکاری خزانے میں جانے کی بجاے افسران کی جیب میں جا رہی ہے اور کرپشن کی رپورٹ آنے کے بعد بھی شہر میں ایک بھی غیر قانونی بورڈ نہیں اترا ہے ۔ سرکاری افسران کے بچوں کے بورڈ لگے ہوئے ہیں وہ خود بھی ملوث ہیں ۔رائے آصف ابوبکر چشتی ،ابرار چشتی کے بیٹے اور بے شمار بورڈ ایسے ہی جو کسی بھی وقت گر سکتے ہیں ۔مسجدوں پر ،چوراہوں ،پر سڑکوں ،یہ آج بھی لگے ہوئے ہیں رشوت کا بازار گرم ہے پیسے دو بورڈ لگاوٴں کی پالیسی آج تک چل رہی ہے لیکن کوئی نہیں ہٹا رہا ہے اب بھی انکوائری ہوئی ہے اس کی مد میں چوبیس کرورڑ کی خردبرد ہوئی ہے۔کرپشن کی کہانی سامنے آنے اور اس میں ملوث افسران کے بے نقاب ہونے کے بعد شہریوں کو توقع ہے کہ وزیر اعلی پنجاب اس کانوٹس لیتے ہوئے نہ صرف کرپٹ افسران کا محاسبہ کریں گے اس کے ساتھ شہر میں غیر قانونی طور پر لگائے گئے اشتہاری بورڈوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی ۔