پاکستان
01 مارچ ، 2013

ملتان: پاکستان میں تیار کردہ ہاتھ کے بنے قالین دنیا بھر میں مقبول

ملتان: پاکستان میں تیار کردہ ہاتھ کے بنے قالین دنیا بھر میں مقبول

ملتان… پاکستان کے تیار کردہ ہاتھ کے قالین پوری دنیا میں پسند کئے جاتے ہیں ۔ مختلف رنگوں کے اون اور ریشم کے دھاگوں کو قینچی اور پنجہ کی مدد سے قالین بنتی لنبی ، 6 سال کی عمر سے اس کام سے وابستہ ہے لنبی اور اس کی بہن ماریہ اپنے ہی گھر میں لگی دستی کھڈی پر دن میں تقریبا 10 گھنٹے قالین بنتی ہیں، درمیانے سائز کا ایک قالین 3 ماہ میں تیار ہوتا ہے۔لبنی کا کہنا ہے کہ2 سو اڑھائی سو دیہاڑی بنتی ہے۔9 ، 10 گھنٹے کام کرتے ہیں کم سے کم 4 سو 5 سو تو بننی چاہیے۔ملتان کا شمار پاکستان کے ان شہروں میں ہے جہاں شریف پورہ اور دہلی گیٹ سمیت کئی علاقے قالین کی تیاری کے کارخانے کا مرکز تھے لیکن اب یہ کام کارخانوں کی بجائے زیادہ تر گھروں میں منتقل ہو چکا جس کی وجہ کارخانوں کی بندش اور اس صنعت سے منسلک کاریگروں کا کم معاوضہ ہے۔بابا اکبر کاریگر کا کہنا ہے کہ ساری عمر گزار دی 50 سال ہو گئے ہیں یہ کام کرتے ہوئے نہ تو ترقی کر سکتے ہیں نہ ہی ہماری ترقی ہوئی ہے پیچھے ہی گئے ہیں آگے نہیں بڑھے۔صدیق کاریگر کہتے ہیں کہ اتنے اتنے مہنگے قالین بنائے کھبی اپنے گھر کے لئے نہیں بچھایا اتنی ہمت ہی نہیں۔محنت زیادہ اور کم معاوضہ نے ماہر کاریگروں کو اپنا یہ فن اپنے بچوں کو منتقل کرنے سے روک رکھا ہے۔ ہاتھ سے تیار کئے جانے والے پاکستانی قالینوں کی سب سے زیادہ مانگ بیرون ملک ہے۔ ایکسپورٹرز کے مطابق پاکستانی دستی قالینوں کی برآمدات 99 فیصد جبکہ پاکستان میں اس کی فروخت صرف ایک فیصد ہے۔ ایک کارخانے کے مالک افتخار شاہ کا کہنا ہے کہ کاریگر کو اچھا معاوضہ دیا جائے تو کاریگردوبارہ آ جائیں گے اور بھی آئیں گے گورنمنٹ Exporters کو Rebates دے جیسے پہلے دیتی تھی تو آنے والے وقت میں کارپٹ کی Export اور بڑھ جائے گی گورنمنٹ اس پر ہاتھ رکھے۔ ایکسپورٹرز کے مطابق ملتان میں ہاتھ سے تیار کئے جانے والے ان قالینوں کی مانگ اپنے منفرد ڈائزین اور اچھی ناٹنگ کی وجہ سے انڈیا ، چائنا ، نیپال اور ملائشیا کے قالینوں سے زیادہ ہے۔ہاتھ سے تیار ہونے والے ان قالینوں کو بیرون ملک بھیج کر کارخانہ مالکان تو بہتر معاوضہ حاصل کر لیتے ہیں لیکن ان کاریگروں کا کہنا ہے کہ کم معاوضہ کے باعث ان کے ہاتھ خالی ہی رہ جاتے ہیں ۔

مزید خبریں :