Time 10 فروری ، 2025
بلاگ

جھوٹے بیانیوں پر سیاست عمران خان جزو ایمان ہے؟

گزشتہ دنوں عمران خان نے ایک شوشہ چھوڑا کہ انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف کو ایک خط ارسال کیا ہے جس پر انہیں دوران قید حکومت کی جانب سے ان پر ڈھائے جانے والے مظالم سے آگاہ کیا ہے لیکن خط کے بارے میںتضاد بیانی کے نتیجے میں خط پر شکوک و شبہات کا اظہار ہوا کیونکہ خط لکھنے کے پیچھے کوئی مثبت سوچ نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد پاکستان اور فوج کو دنیا میں رسوا کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا تھے تاہم فوجی حلقوں کی جانب سے واضح کیا گیا کہ نہ تو آرمی چیف کو یہ خط موصول ہوا اور نہ ہی انہیں خط کے مندرجات معلوم کرنے کی ضرورت ہے جس پر عمران خان نے ایک اور قلابازی لی اور آرمی چیف کے نام کھلے خطوط لکھنا شروع کر دئیے۔ 

کہتے ہیں’’میں نے ملک و قوم کی بہتری کی خاطر نیک نیتی سے آرمی چیف کے نام کھلا خط لکھا تا کہ فوج اور عوام کے درمیان دن بدن بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کیا جا سکے مگر اس کا جواب انتہائی غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری سے دیا گیا۔‘‘اگرچہ خط کے مندرجات دروغ گوئی، فریب،مکاری اور خودنمائی سے لبریز تھے لیکن بعض لوگوں نے اسے عمران خان کی جانب سے ملک میں سیاسی استحکام کی نوید تصور کیا لیکن اس وقت ان کی امید کی کرنیں شب تاریک میں بدل گئیں جب عمران خان نے فوج اور پاکستان کو دھمکیوں پر مبنی ’’چیف آف آرمی اسٹاف کے نام کھلا خط‘‘ تحریر کرنے کا سلسلہ شروع کردیا اور اسے پوری دنیا میں پھیلا دیا۔اس نام نہاد محب وطن نے ایک موقع پر لکھا ہے کہ’’مجھے صرف اور صرف اپنی فوج کے تاثر اور عوام اور فوج کے درمیان بڑھتی خلیج کے ممکنہ مضمرات کی فکر ہے، جس کی وجہ سے میں نے یہ خط لکھا‘‘۔ ایجنسیز کے ذریعے پری پول دھاندلی اور الیکشن کے نتائج تبدیل کر کے اردلی حکومت قائم کی)جیسے2018میں انہی ایجنسیوں نےایسی ہی دھاندلی کرکے عمران خان کو قوم پر مسلط کیا تھا( عدالت کا حکم نہ مانتے ہوئے مجھے بچوں سے بات کرنے نہیں دی جاتی جو میرا بنیادی اور قانونی حق ہے۔ پچھلے چھ ماہ میں گنتی کے چند افراد کو ہی مجھ سے

ملوایا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے واضح احکامات کے باوجود میری اہلیہ سے میری ملاقات نہیں کروائی جاتی۔میری اہلیہ کو بھی قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔کیا عمران خان کا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ یہ بھی بھول گئے کہ انہوں نے اپنے دور بادشاہت میں جیلوں میں بند اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا کیا تھا؟ خط میں فوج کو ان الفاظ میں دھمکیاں دی گئی ہیں ملکی استحکام اور سلامتی کے لیے ناگزیر ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان کی خلیج کم ہو اور اس بڑھتی خلیج کو کم کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے فوج کا اپنی آئینی حدود میں واپس جانا، سیاست سے خود کو علیحدہ کرنا اور اپنی متعین کردہ ذمہ داریاں پوری کرنا اور یہ کام فوج کو خود کرنا ہو گا ورنہ یہی بڑھتی خلیج قومی سلامتی کی اصطلاح میں فالٹ لائنز بن جائیں گی۔9مئی اور 26نومبر کو ہمارے’’نہتے جمہوریت پسند کارکنوں‘‘ پر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی گئی۔ پر امن شہریوں پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں۔ 

سیاسی انتقام کی آڑ میں تین سالوں میں لاکھوں شہریوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، ہمارے 20ہزار سے زائد ورکرز اور سپورٹرز کو گرفتار کیا گیا اور سیکڑوں کو اغواء کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہزاروں بےگناہ لوگوں کو کئی کئی ماہ جھوٹے کیسز میں جیلوں میں رکھا گیا۔ ایجنسیز کے دباؤ پر ہمارے دو ہزار سے زائد ورکرز، سپورٹرز اور پارٹی لیڈرز کی ضمانت کی درخواستیں اب تک ہائی کورٹ کے ججز التوا میں رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔

( اسی ناقدین کا کہنا ہے کہ جھوٹے بیانیوں پر سیاست کرنا عمران خان کا جزو ایمان ہے( یہ سب ہماری روایات کے منافی ہے اور اس کی وجہ سے عوام میں فوج کے خلاف نفرت بہت بڑھ گئی ہے جس کا سدباب بروقت ہو جائے تو یہ فوج اور ملک دونوں کے حق میں بہتر ہے ورنہ اس سب سے ناقابل تلافی خسارہ اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ (قومی اداروں کا تمسخر اڑانے کی ابتدا کس نے کی تھی اور فوج اور فوجی تنصیبات پر حملے کس نے کئے تھے( ؟ پیکا جیسے کالے قانون کے ذریعے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بھی قدغن لگا دی گئی ہے۔ (بانی پھر بھول گئے کہ انہوں نے پیکا قانون میں زہریلی ترامیم کے ذریعےمیڈیا کی زبانیں کاٹنے کی جو کوشش کی تھی تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کرے گی( معاشی عدم استحکام اپنی انتہا پر ہے۔ گروتھ ریٹ صفر ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک میں غربت اور بےروزگاری عروج پر ہے۔(قوم شاید عمران خان کے دور میں بہنے والی دودھ کی نہریں بھول گئی ہے جو عمران خان کا دور ختم ہوتے ہی خشک ہو گئیں اور پاکستان کی عوام ان سے استفادہ سے محروم ہو گئی)۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔