Time 20 فروری ، 2025
بلاگ

نیا میثاق جمہور یت

پاکستان جمہوری طور پر وجود میں آنے والا ایک ایسا ملک ہے جہاں کئی قومیں بستی ہیں،  یہ اسی صورت پروان چڑھ سکتا ہے جب یہاں مکمل طور پر آئینی جمہوریت ہو۔

 پاکستان کو دیکھنے والے ہر شخص پریہ بات رو ِز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج نہ صرف ہم اپنے مقصد سے بے حد دور ہیں بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ فاصلہ مزید بڑھتا جا رہا ہے، اگر ہم نے اپنا طرز عمل فوری طور پر درست نہ کیا تو ہم ایک ایسی صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں پاکستان کے مفاد کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ 

موجودہ صورتحال سے بحالی کا سفر، اگر ممکن بھی ہو ، تو یہ ایک طویل مدتی عمل ہے جس کے لیے یقیناً ہمیں بہت قیمت چکانی پڑے گی، ہم پہلے ہی اپنے خطے میں موجود دیگربہت سے ممالک سے کافی پیچھے جا چکے ہیں، نہ تو ہم ایسے مزید دھچکے برداشت کرنے کے قابل ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس اتنا وقت ہے۔

اگر ہم بحالی کے راستے پر، کامیابی کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں تو کچھ بنیادی اصولوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،  یہ ایک جدید کثیر القومی معاشرہ ہےاور ہمیں پوری قوم میں ایک اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری اجتماعی زندگی کو کس انداز سے منظم کیا جائے گا اور ہماری ریاست اور شہریوں کے حقوق اور ذمہ داریاں کیا ہوں گی۔ 

ایسا ایک متفقہ آئین کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے جو عوام کے منتخب نمائندوں کی طرف سے تیار کیا گیا ہو اور وہی اس کی منظوری دیں،  جب ہم ایک غیر آئینی راستے پرچلنا شروع کرتے ہیں ، توہم اپنے شہریوں اور ریاست کے درمیان مضبوط تعلق میں دراڑ پیدا کرتے ہیں کیونکہ ایسے میں ہم لوگوں پر ان قوانین کے مطابق حکمرانی کی کوشش کرتے ہیں جن میں ان کی مرضی شامل نہیں ہے۔

اسی طرح حکمرانوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ انہیں عوام نے منتخب کیا ہو اور وہ عوام کی منشا کی عکاسی کرتے ہوں، جب ہم غیر آئینی اقدامات اٹھاتے ہیں اور ایسے افراد کو مسلط کرنے کے لیے عوام کی مرضی کے خلاف جاتے ہیں، جو عوام کے منتخب کردہ نہ ہوں تو ہم شہریوں اور ریاست کے درمیان قائم بھروسے کو ختم کردیتے ہیں ، جو کامیابی کے لیے انتہائی ضروری ہے جیسے ہی شہریوں اور ریاست کے درمیان بھروسہ کم ہونے لگتا ہے، شہری اپنی مرضی کے خلاف مسلط کیے گئے اقدامات کے خلاف احتجاج اور مخالفت کی راہ اختیار کرتے ہیں ۔

ایسی صورتحال میں ریاستی اداروے اپنی اتھارٹی منوانے کے لیے جبری حربے اختیار کرتے ہیں ، جو شہریوں اور ریاست کے درمیان تعلق اور اعتماد کو مزید کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں، اگر اس بھنور کو جاری رہنے دیا جائے تو یہ ریاست کی بنیاد ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت ہم اپنے آپ کو ایک ایسے ہی بھنور میںِگھرا محسوس کرتے ہیں۔

کوئی بھی آئینی جمہوریت اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس میں ایگزیکٹو پر کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس نہ ہو، ایک آزاد اور غیر سیاسی عدلیہ کسی بھی کامیاب جمہوریت کا لازمی جزو ہے جو طاقتور طبقے کی خواہشات کے تابع نہیں ہوتی بلکہ آزادی کے ساتھ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔

اگر دیکھا جائے تو سیاسی قیادت پارلیمنٹ میں سیاسی تنازعات کے حل میں بار بار ناکام ثابت ہوئی ہے، اس کے نتیجے میں پیچیدہ سیاسی نوعیت کے تمام تر سوالات کو عدالتی عمل کے ذریعے حل کرنے کے لیے عدالتوں کا رخ کیا جاتا رہا ہے، جس نے اعلیٰ عدلیہ کوبھی جانبدارانہ سیاست میں شامل کردیا ہےاوراب ہمیں عدالت بار بار سیاسی محاذ پر منقسم دکھائی دیتی ہے،  اس کے علاوہ گزشتہ برسوں کے دوران بار بار اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور طاقتور طبقے کی جانب سے عدالتی فیصلوں کو حسب ِ منشا کنٹرول کرنے کی خواہش نے عدلیہ کو مزید کمزور کردیا ہے۔

ایک مؤثر اور فعال جمہوریت کے لیے آزاد ی اظہار  رائے ایک اور بنیادی شرط ہے،2000کی دہائی کے اوائل میں میڈیا کو نسبتاً حاصل ہونے والی آزازدی کے بعد، ہم نے حالیہ برسوں میں اسے سنگین حد تک نیچے جاتے ہوئے دیکھا ہے، ہم سوشل میڈیا پر اظہا ر رائے کی آزادی اور فیک نیوز اور مخالفین کو بدنام کرنے کے طرز عمل کے درمیان توازن پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔

 ایسا لگتا ہے کہ ہم بیک وقت اظہا ِر رائے کی اصل آزادی کا گلاگھونٹ رہے ہیں مگر فیک نیوز اور ہتک آمیز موادکے پھیلاؤکو رکنے سے قاصر ہیں۔

متذکرہ بالا صورتحال میں مخالف سیاسی جماعتوں کے درمیان تمام تر سیاسی اقدار کے خاتمے نے بھی ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے، ایک بہتر مسابقتی ماحول میں، شہریوں کی حمایت سے جائز طور پر حکومت قائم کرنے کی کوشش کے بجائے ہم اپنے سیاسی مخالفین کو مکمل طورپر کچل دینے کی روش تک آپہنچے ہیں۔ تمام تر سیاسی رابطے اورڈائیلاگ ختم ہو چکے ہیں اور پارلیمنٹ ایک ایسا فورم بن کر رہ گئی ہے جہاں نہ تو سیاسی اختلافات پرمؤثرطور پربحث کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی بات پر اتفا ِق رائے پیدا کیا جا سکتا ہے۔

کہیں بھی جمہوریت اس انداز سے کام نہیں کر سکتی جہاں آپ مد مقابل کو سیاسی مخالف کے بجائے دشمن سمجھتے ہوں جنہیں بے رحمی سے کچل دیا جانا مقصود ہو۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان روابط کے مکمل خاتمے نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی عمل میں مداخلت اور اکثر اس پر مکمل کنٹرول کی راہ ہموار کی ہے۔

یہ صورتحال مستقل طور پر جاری نہیں رہ سکتی،  وہ تمام افراد جو آئین اور عوامی رائے کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں، وہ اس ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے ملک کی سیاسی قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں، اس حوالے سے کوئی مستقل حل اس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک اسے اسٹیبلشمنٹ کی بھی حمایت حاصل نہ ہو لیکن اس معاملے کی قیادت بہرحال سیاسی لیڈرشپ کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔

 اس تعطل کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت آپس میں مل بیٹھے اور ایک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی پر کام شروع کرے جو ہماری جمہوریت کو درپیش سنگین خطرات سے نمٹنے اور سیاسی ڈھانچے میں دراڑیں پیدا کرنے والے عوامل کا تدارک کرتے ہوئے تمام ترموجودہ مسائل کو اتفا ق رائے سے حل کرنے کی راہ ہموار کر سکے جن مسائل پر فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ان میں سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کے درمیان روابط استوار کرنے کے لیے نئے قواعدوضع کرنا بالخصوص احتساب کا پیچیدہ مسئلہ شامل ہے۔

 دوسرا یہ کہ اس بات کو کیسے یقینی بنایا جائے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی عمل سے مستقل طور پر علیحدگی اختیار کرے۔ ، تیسرا، 26ویں آئینی ترمیم اور عدلیہ کی آزادی پر اس کے اثرات، چوتھا ، پیکا قوانین اور اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ساتھ فیک نیوز اور ہتک ٓامیز مواد سے تحفظ، پانچواں فوجی عدالتوں کے آپریشن کا دائرہ ٗکار، چھٹا، سیاسی قیدیوں کا معاملہ اور سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے مقدمات کا تصفیہ۔

ساتواں، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل اور آئندہ الیکشن کے وقت کا تعین۔ آٹھواں، 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے طریقہ کار کے حوالے سے باہم اتفاق۔ نواں، لوکل گورنمنٹس کے حوالے سے آئینی دفعات کو مزید مضبوط بنا کر جمہوریت کی بنیادوں کومستحکم کرنا۔ دسواں، مشترکہ مفاداتی کونسل کا کردار اور اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں اور وفاق کے درمیان بہتر رابطے کے نظام کو مضبوط بنانا ، گیارہواں، بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ کرنے اور وہاں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے انتظامی اور سیکیورٹی اقدامات پر انحصار کم کرنے کے لیے ایک قومی سیاسی حکمت عملی وضع کرنا۔

بارہواں، فاٹا کے انضمام کے بعد، ضم کیے گئے اضلاع میں درپیش صورتحال کا جامع تجزیہ ، اور انضمام سےقبل کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کا جائزہ  اور آخر میں گلگت بلتستان کے عوام کو مزید با اختیار بنانا اور گلگت بلستان سے متعلق معاملات میں شریک کرتےہوئے انہیں احساس ملکیت دینا۔

یہ بات واضح ہے کہ یہ صرف ملک کو درپیش مسائل کے حوالے سے تجاویز ہیں جن پر میرے خیال میں قومی سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے،  جب سیاسی جماعتیں آپس میں مل بیٹھتی ہیں، تو وہ یقیناً اس میں کوئی معاملہ حذف یا مزید کوئی معاملہ شامل کر سکتی ہیں۔ فریقین یہ بھی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ متذکرہ بالا معاملات میں سےکچھ پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے جبکہ دیگر پر موجودہ سیاسی صورتحال سے نمٹنے کے بعد تبادلہ خیال کیا جا سکتا ہے۔

میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ کہیں گے کہ یہ خواہشات کی ایک فہرست کے سوا کچھ نہیں جس کے حقیقت میں بدلنے کا کوئی امکان نہیں  مگر مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ اگر ہم ایسا کرنے کے لیے اجتماعی طور پر ارادہ نہیں کرسکتے تو سمجھ لیجئے کہ ہم ایک ٹائی ٹینک کی مانند ہیں جو سیدھا سیدھا ایک برفانی تودے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

 پاکستان کے 25 کروڑ عوام کی خاطرہمیں اپنے ذاتی مفادات، انا اور تنگ نظری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قوم کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے اٹھ کھڑے ہونا ہوگا۔ اگر ہم ایسا کرپائے، تو یہ قوم پیرس میں ارشد ندیم کے جیولن کی طرح اوپر جا سکتی ہے جسے دنیا بھر نے چشم حیرت سے دیکھا اور دل کھول کر سراہا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔