23 فروری ، 2025
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور ہر 4 سال بعد اس میں ایک دن کا اضافہ کیا جاتا ہے۔
مگر آخر کیوں فروری کو 28 دنوں کے مہینے کے لیے منتخب کیا گیا اور ایسا کب سے ہو رہا ہے؟
آسان الفاظ میں ہمیں 28 دنوں کے مہینے کی ضرورت کیوں ہوتی ہے اور یہ کس طرح ہماری زندگی کا حصہ بنا؟
تو اس کے جواب کے لیے آپ کو جدید کیلنڈر کی تاریخ میں جانا ہوگا۔
اس وقت جو کیلنڈر استعمال کیا جاتا ہے اسے گریگورین کیلنڈر کہا جاتا ہے۔
یہ کیلنڈر بنیادی طور پر جولین کیلنڈر پر مبنی ہے (اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئی تھیں) جو قدیم روم کا کیلنڈر ہے۔
قدیم روم میں مہینے اسلامی سال کی طرح تھے یعنی ان کی تاریخیں چاند پر مبنی تھیں اور ایک سال 365.25 دنوں کا بنتا تھا۔
اس کے نتیجے میں قدیم ترین رومی کیلنڈرز میں 29 یا 30 دن کے مہینے ہوتے تھے اور زیادہ الجھا دینے والی بات یہ تھی کہ قدم روم نے قدیم یونان کے 10 مہینوں کے کیلنڈر کے خیال کو اپنایا تھا، تو لگ بھگ 60 دن شمار ہی نہیں ہوتے تھے۔
یعنی اس وقت جنوری اور فروری کے مہینے کیلنڈر میں موجود ہی نہیں تھے۔
مثال کے طور پر 738 قبل مسیح میں قدیم رومی باشندے 10 مہینے کے کیلنڈر کا استعمال کرتے تھے اور سال کا آغاز مارچ سے ہوتا تھا۔
بعد ازاں باقی بچ جانے والے 60 یا اسے زیادہ دنوں کے لیے جنوری اور فروری کا اضافہ 700 قبل مسیح کے کیلنڈر میں کیا گیا۔
اس زمانے میں جنوری سال کا پہلا اور فروری سال کا آخری مہینہ تھا اور یہ سلسلہ 424 قبل مسیح تک برقرار رہا۔
اس عہد میں فروری کو سال کا دوسرا مہینہ بنا دیا گیا۔
جولیس سیزر نے 46 قبل مسیح میں رومی کیلنڈر کو تبدیلی کرتے ہوئے فروری کے علاوہ ہر مہینے کو 30 یا 31 دنوں کا کردیا، اس کیلنڈر میں اگست کا مہینہ 30 دن کا تھا۔
اس کیلنڈر میں فروری کا مہینہ 29 دنوں کا ہوتا تھا اور ہر 4 سال بعد اسے 30 دن کا کردیا جاتا۔
رومی شہنشاہ آگستس نے فروری سے ایک دن لیا یعنی اسے 29 کی جگہ 28 دن کا کردیا اور اگست کو 31 دنوں والا مہینہ بنادیا۔
تو جب سے سال کے 7 مہینے 31 دن، 4 مہینے 30 دن جبکہ ایک مہینہ 28 دن کا ہوتا ہے۔
بظاہر تو ایک اضافی دن کا اضافہ مضحکہ خیز لگتا ہے مگر لیپ ایئرز بہت اہم ہوتے ہیں اور ان کے بغیر کیلنڈر میں نظر آنے والے سال بتدریج مختلف نظر آنے لگے گے۔
گریگورین کیلنڈر سورج کے گرد زمین کے مدار پر مبنی ہے اور 365 دن پر مشتمل ہوتا ہے مگر یہ ایک شمسی سال سے کچھ چھوٹا ہے۔
ایک شمسی سال 365 دن، 5 گھنٹے، 48 منٹ اور 56 سیکنڈز پر مشتمل ہوتا ہے۔
اگر اس فرق کا خیال نہ رکھا جائے تو ہر گزرتے برس کے ساتھ یہ وقفہ بڑھتا جائے گا اور بتدریج موسموں کا وقت بدل جائے گا۔
مثال کے طور پر اگر لیپ ایئر کا استعمال روک دیا جائے تو 700 برس بعد شمالی نصف کرے یا پاکستان میں موسم گرما کا آغاز جون کی بجائے دسمبر میں ہوگا۔
لیپ ایئر سے اس مسئلے سے بچنے میں مدد ملتی ہے کیونکہ سال میں ایک اضافی دن سے 4 برسوں میں آنے والے فرق کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔
مگر یہ سسٹم مثالی نہیں کیونکہ ہر 4 سال بعد 44 منٹ اضافی ہو جاتے ہیں یا 129 برسوں میں پورا ایک دن۔
یہی وجہ ہے کہ ہر صدی کے اختتامی سال جیسے 2000 میں لیپ ایئر کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اس کے بعد بھی کیلنڈر کے سال اور شمسی سال میں معمولی فرق رہ جاتا ہے جسے لیپ سیکنڈرز سے پورا کیا جاتا ہے۔
آسان الفاظ میں لیپ ایئر سے گریگورین کیلنڈر کو سورج کے وقت سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔