06 مارچ ، 2025
اسلام آباد کو سازشوں کا شہر کہا جاتا ہے، اس شہر میں آج کل خوف اور تشویش کی فضا قائم ہے۔ میرے جیسے صحافی تو ڈی چوک کے ٹریفک سگنل پر بھیک مانگنے والے کسی خواجہ سرا کو اپنی طرف آتا دیکھ کر ہی چوکنے ہو جاتے ہیں کیونکہ ان خواجہ سراؤں کو دیکھ کر ہمیں تحریک انصاف کے رہنما رؤف حسن یاد آجاتے ہیں جن پر گزشتہ سال کچھ پراسرار خواجہ سراؤں نے حملہ کیا تھا۔
ان حملہ آوروں کی ویڈیو فلمیں موجود تھیں لیکن آج تک ان میں سے کوئی بھی گرفتار نہ ہوا۔ ریڈزون کے ٹریفک سگنلز پر نظر آنے والے یہ خواجہ سرا خوف کی علامت بن چکے ہیں جنہیں دیکھتے ہی بڑے بڑے پھنے خان انہیں جھک کر سلام کرتے ہیں اور کچھ صاحبان تو انہیں سلیوٹ مارتے بھی نظر آتے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں خوف اور تشویش کی نئی لہر کے پیچھے لال مسجد اور اسلام آباد پولیس کے درمیان پیدا ہونے والی نئی کشیدگی ہے۔ 2007ء میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے لال مسجد میں آپریشن کیا تھا جسکے ردعمل میں ٹی ٹی پی جیسی تنظیمیں قائم ہوئیں۔ جن وجوہات کی بنیاد پر اٹھارہ سال قبل مولانا عبدالعزیز اور اسلام آباد پولیس کے درمیان تنازع پیدا ہوا تھا وہ وجوہات اٹھارہ سال بعد بھی ختم نہیں ہوئیں۔
مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ امِ حسان گرفتار ہیں اور لال مسجد کا پولیس نے گھیراؤ کر رکھا ہے، ہم نے اٹھارہ سال قبل بھی افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے کی گزارش کی تھی اور آج بھی افہام و تفہیم پر ہی زور دیں گے لیکن اسلام آباد کے ریڈزون میں واقع لال مسجد ایک دفعہ پھر ہر افطار ڈنر کا موضوع بحث بنی ہوئی ہے، کیا ریاست آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں اٹھارہ سال پہلے کھڑی تھی؟ اٹھارہ سال قبل عدلیہ کو فتح کرنے کی کوشش کی گئی۔ میڈیا پر پابندیاں لگائی گئیں اور آئین کو معطل کر دیا گیا۔
کیا اٹھارہ سال بعد آپ کو پاکستان میں کوئی تبدیلی نظر آ رہی ہے؟ اٹھارہ سال قبل جب جنرل پرویز مشرف نے مجھ سمیت کچھ ٹی وی اینکرز پر پابندی لگائی تو مجھے ایک غیر ملکی ٹی وی چینل میں نوکری کی پیشکش ہوئی۔ ان دنوں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو دبئی میں مقیم تھیں۔ ان کو اس پیشکش کا پتہ چلا تو انہوں نے مجھے کہا کہ پاکستان چھوڑ کر نہ جانا وہیں رہ کر جدوجہد کرو کیونکہ میں واپس پاکستان جا رہی ہوں۔ میں نے انہیں پاکستان واپس آنے سے روکا اور بتایا کہ آپ کی زندگی کو یہاں خطرہ ہو گا۔ انہوں نے جواب دیا میں اپنے وطن میں شہید ہونا چاہتی ہوں وہ واپس آئیں اور شہید ہو گئیں۔
کیا ان کی قربانی سے پاکستان میں جمہوریت اور آئین کو کوئی تقویت ملی؟ آج کی پیپلز پارٹی کے سینے پر 26ویں ترمیم کا تمغہ سجا دیا گیا ہے لیکن آئین کی عملداری کہیں نظر نہیں آتی۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کا آغاز دہشت گردی کے واقعات سے ہوا ہے ایک طرف قلات میں قومی شاہراہ پر ایک خاتون نے سکیورٹی فورسز پر خودکش حملہ کیا تو دوسری طرف بنوں میں خود کش حملے کے نتیجے میں بے گناہ خواتین اور بچے شہید ہو گئے۔
ہمارے ارباب اختیار اِن حملوں کا تعلق افغانستان سے جوڑ کر اپنے آپ کو ہر قسم کی ذمہ داری سے آزاد کر لیتے ہیں۔ مان لیا کہ آج کل پاکستان میں ہونے والے حملوں کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں لیکن یہ خودکش بمبار صرف پاکستان میں کیوں داخل ہوتے ہیں؟ یہ ایران میں داخل کیوں نہیں داخل ہو پاتے؟
منگل کی شام جب بنوں میں خود کش حملوں کی خبر آئی تو میں ایک دوست کے ہاں افطار ٹیبل پر بیٹھا تھا اتفاق سے ٹیبل پر موجود اکثر شخصیات کا تعلق حکومت سے تھا۔ ان سب کو پرویز خٹک کی فکر کھائے جا رہی تھی جنہوں نے اپنے لئے مشیر داخلہ کا عہدہ مانگا ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ پرویز خٹک کو چھوڑو بنوں میں خود کش حملہ ہو گیا ہے۔ ایک وفاقی وزیر نے خود کش حملے کی خبر کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ آؤ پہلے نماز پڑھ لیں پھر آرام سے کھانا کھائیں گے۔ وفاقی وزیر کی امامت میں نماز ادا کرنے کے بعد میں نے پوچھا کہ آج کابینہ کا اجلاس تھا اس اجلاس میں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے کسی نئی حکمت عملی پر غور ہوا یا نہیں؟ میرا سوال پھر نظر انداز ہو گیا کیونکہ وزیر صاحب یہ جاننا چاہتے تھے کہ پرویز خٹک مشیر داخلہ بن جائیں گے یا نہیں؟
آج پاکستان کاسب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران قومی بقاء کی بجائے ذاتی بقاء کی جنگ میں مصروف ہیں۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ آئین اور جمہوریت کی کمزوری کا مطلب ان انتہا پسندوں کی مضبوطی ہے جو خود کش حملوں کے ذریعے ایک مخصوص سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ خود کش حملے کرنے والوں کو صرف خوارج قرار دے دینا کافی نہیں ہے۔ یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ خروج اور تکفیر کا مسئلہ کیا ہے؟
اس معاملے پر افغان طالبان اور دولت اسلامیہ (داعش) کےنقطہ نظر میں کیا فرق ہے اور دونوں میں سے زیادہ خطرناک کون ہے؟ پاکستان کئی دہائیوں سے خودکش حملوں کی زد میں ہے لیکن آج تک ہماری پارلیمینٹ میں یہ بحث نہیں ہوئی کہ جمہوریت اور آئین پر کفر کا فتویٰ لگانے والوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ ہم چند سرکاری علماء سے خودکش حملوں کے خلاف ایک فتویٰ حاصل کر لیتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ فتویٰ دینے والے علامہ صاحب یا مفتی صاحب عمران خان کی حکومت کے بھی گیت گاتےتھے اور شہباز شریف حکومت کے بھی آگے پیچھے دوڑ رہے ہیں، جو پارلیمینٹ اپنے دفاع کیلئے چند ابن الوقت علماء کی محتاج ہے وہ ا ئین کا دفاع کیسے کر سکتی ہے؟ پارلیمینٹ میں ایسے علماء اور صاحب علم افراد کی کمی نہیں ہے جو خروج اور تکفیر پر گفتگو کر سکتے ہیں۔
پارلیمینٹ میں یہ بحث ہونی چاہئے کہ بلوچستان میں خودکش حملے کرنے والی خواتین اور خیبر پختونخوا میں حملے کرنے والے مردوں کے نظریات میں کیا فرق ہے اور ان مختلف نظریات رکھنے والوں نے ایک دوسرے سے اتحاد کیوں کر لیا ہے؟ کیا یہ انتہا پسند پاکستان کو شام جیسی خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں؟ اگر ان انتہا پسندوں کی کسی کارروائی سے پاکستان اور بھارت میں دوبارہ کشیدگی بڑھ گئی تو کیا جنوبی ایشیا ایک ایٹمی جنگ کے خطرے سے دوچار ہو جائے گا؟
کسی کو اچھا لگے یا برا، آج پاکستان جس پیچیدہ صورتحال کا شکار ہے اس سے کوئی ایک جماعت یا ایک ادارہ پاکستان کو نہیں نکال سکتا۔ آپ کو آئین اور جمہوریت کی ساکھ بحال کرنی ہوگی کیونکہ آپ کا مقابلہ ان سے ہے جو آئین اور جمہوریت کو کفر سمجھتے ہیں۔ وہ تو اس ریاست اور اس کے حکمرانوں کی بھی تکفیر کرتے ہیں ان کا جواب چند خوشامدی علماء نہیں دے سکتے تکفیر کا جواب پارلیمینٹ کو دینا ہے۔ پارلیمینٹ یہ جواب دے سکتی ہے لیکن اس کیلئے تھوڑی جرات اور تھوڑی آزادی کے ساتھ ساتھ بہت سا اتحاد بھی چاہئے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔