20 مارچ ، 2025
وہ جو ایک ایس ایچ او کی مار تھے ان سے نمٹنے کیلئے پارلیمینٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا خصوصی اجلاس بلایا گیا۔ اس اجلاس میں شرکت کیلئے پارلیمینٹ میں موجود اپوزیشن جماعتوں کو بھی دعوت دی گئی۔
اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کا خیال تھا کہ جعفر ایکسپریس پر حملے اور اوپر تلے کئی علماء کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد انہیں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ضرور جانا چاہئے۔ اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کرنے کیلئے تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا گیا۔ اس اجلاس میں ایک رائے تو یہ تھی کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت بہت ضروری ہے تاکہ قوم کو بتایا جائے کہ دہشت گردی کے خلاف تحریک انصاف ریاست کے ساتھ کھڑی ہے۔
دوسری رائے یہ تھی کہ تحریک انصاف تو خود دہشت گردی کا نشانہ ہے۔ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو دہشت گردوں کی طرف سے روزانہ دھمکیاں دی جا رہی ہیں لیکن حکومت کی طرف سے تحریک انصاف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد قوم میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت تھی لیکن کوئٹہ میں تحریک انصاف کے ایم این اے عادل خان بازئی کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جاتے رہے۔
تحریک انصاف کے سنیٹر اعجاز چوہدری کو سینیٹ کے اجلاس میں لانے کیلئے پروڈکشن آرڈر پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور وزیر دفاع خواجہ آصف مسلسل تحریک انصاف کو دہشت گردوں کاساتھی قرار دیتے رہے لہٰذا قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ حکومت دہشت گردی کے خلاف قومی اتحاد قائم کرنے میں سنجیدہ نہیں بلکہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے نام پرسیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں طویل بحث مباحثے کے بعد فیصلہ ہوا کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان سے ملاقات کرانے کا مطالبہ کیا جائے تاکہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ عمران خان کریں۔اس دوران تحریک تحفظ آئین کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے اڈیالہ جیل ملاقات کیلئے جانے والوں کو بتا دیا کہ وہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے خلاف ہیں۔
منگل کو اڈیالہ جیل میں تحریک انصاف کے رہنماؤں کی عمران خان سے ملاقات ہوئی تو انہیں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ہونے والی گفتگو کے علاوہ اچکزئی صاحب کے مؤقف سے بھی آگاہ کیا گیا۔عمران خان نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کی تائید کر دی۔ یہ فیصلہ ان تمام اہل فکر و دانش کے لئے ایک دھچکا تھا جن کو یہ توقع تھی کہ جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد پوری قوم متحد ہو کر دہشت گردوں کے خلاف ایک نیا لائحہ عمل بنائے گی۔
اپوزیشن جماعتوں کا فیصلہ بتا رہا تھا کہ سیاسی تقسیم اتنی بڑھ چکی ہے کہ فریقین سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کر چکے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح کی انتہا پسندی ہے جس کا مظاہرہ سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا پر حکومت کے حامی اور مخالف صرف ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے نظر نہیں آتے بلکہ ایک دوسرے کے خاندانوں کی خواتین کے بارے میں بھی نازیبا باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ افسوسناک رجحان دراصل ہمارے اخلاقی زوال کا مظہر ہے۔
سوشل میڈیا پر گالی گلوچ صرف ایک فریق نہیں کر رہا دونوں اطراف سے گالی گلوچ ہوتی ہے اور اس دوڑ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہر کسی نے رمضان المبارک کے مہینے میں اپنے اپنے سر پر ایمان کا خوانچہ اٹھا رکھا ہے اور وہ بازار میں اپنے ایمان کی بولی لگا رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ء کے نام سے ایک قانون بنایا ہے۔ اس قانون پر صرف وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نہیں بلکہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان حکومت بھی عمل پیرا ہے لیکن آپ کوسوشل میڈیا پر کہیں امن وامان نظر نہیں آ ئے گا۔
خدشہ ہے کہ ایک قومی اتفاق رائے کے بغیر دہشت گردوں کے خلاف نیا آپریشن کیا گیا تو اس کا انجام بھی وہی ہو گا جو پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ء کا ہوا ہے۔ حکومت کی طرف سے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانا ایک اہم پیش رفت تھی لیکن اس اجلاس کو کامیاب بنانے کیلئے جن اقدامات کی ضرورت تھی وہ نہیں کئے گئے۔ اب تحریک انصاف پر تنقید کی جا رہی ہے کہ اس نے ا جلاس میں شرکت کو عمران خان کی پیرول پر رہائی سے کیوں مشروط کیا؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے تو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار نہیں کیا۔ وہ اجلاس میں شریک ہوئے اور انہوں نے کھل کر اپنا نکتہ نظر بھی بیان کیا۔
انہوں نے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے حالات کا جو نقشہ کھینچا وہ دراصل ریاستی اداروں کے خلاف ایک چارج شیٹ تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے وہی باتیں کیں جو تحریک انصاف کے قائدین کرتے ہیں لیکن مولانا صاحب کا لہجہ ذرا مختلف ہوتا ہے پچھلے چند ماہ سے عمران خان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح مولانا فضل الرحمان کو گرینڈ اپوزیشن الائنس کا حصہ بنا لیا جائے۔ مولانا صاحب اس معاملے میں بہت محتاط ہیں وہ موجودہ حکومتی بندوبست سے اتنے ہی نالاں ہیں جتنے عمران خان ہیں لیکن وہ عمران خان کے ساتھ اتحاد کر کے اپنے ناقدین کو یہ موقع نہیں دینا چاہتے کہ وہ انہیں مولانا یوٹرن قرار دیں۔
تحریک انصاف کی قیادت کو بھی یہ احساس تھا کہ اگر مولانا فضل الرحمان اس کے ساتھ اتحاد میں شامل ہوتے ہیں تو زیادہ فائدہ تحریک انصاف کو ہے مولانا کو نہیں۔ اسی لئے تحریک انصاف نے پچھلے دنوں مولانا صاحب کو ایک ایسی پیشکش کی کہ خود مولانا بھی ہکا بکا رہ گئے۔ مولانا کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی لہٰذا انہوں نے تحریک انصاف والوں سے کہا کہ جے یو آئی (ف) کے قائدین آپس میں صلاح مشورے کے بعد آپ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کریں گے۔ یہ بات چیت ابھی جاری تھی کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ ہو گیا اور قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلالیا گیا۔
مولانا فضل الرحمان نے اجلاس میں شرکت کی اور تحریک انصاف نے نہیں کی ۔کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ مولانا اور عمران خان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ مولانا کے قریبی ذرائع کو بھی شکوہ ہے کہ تحریک انصاف نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کے معاملے پر ان سے کوئی مشورہ نہیں کیا۔ ابھی تک تو مولانا نے تحریک انصاف کےساتھ مل کر کوئی تحریک چلانے کے معاملے پر لیت ولعل سے کام لیا ہے لیکن حکومت ایسے حالات پیدا کر رہی ہے کہ مولانا کے پاس تحریک انصاف کے ساتھ ملکر اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ رہے۔
مولانا کے تحفظات دور کئے بغیر آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تو پھر مولانا بھی وہی کر سکتے ہیں جو شہباز شریف نے کیا۔ شہباز شریف کہا کرتے تھے کہ وہ آصف علی زرداری کو الٹا لٹکا کر لوٹ مار کا پیسہ برآمد کریں گے پھر انہوں نے زرداری صاحب کو صدر پاکستان بنا دیا، ہو سکتا ہے تحریک انصاف اور جے یو آئی (ف) میں بھی ایسا بندوبست ہوجائے جو کام شہباز شریف نے کیا وہ مولانا کیوں نہیں کرسکتے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔