13 مئی ، 2025
اگر آپ کچھ وقت تک اپنے ہاتھوں اور پیروں کو پانی میں ڈبو کر رکھیں تو ان پر عجیب جھریاں نمودار ہو جاتی ہیں۔
یعنی ہاتھوں اور پیروں کی ہموار سطح پر عجیب سے لکیریں ابھر آتی ہیں جو کچھ افراد کو بدنما محسوس ہوتی ہیں۔
مگر اب ان جھریوں اور انگلیوں کے بارے میں سائنسدانوں کچھ حیران کن دریافت کیا ہے۔
سائنسدانوں کا پہلے خیال تھا کہ پانی جِلد کی اوپری تہوں سے گزر کر معمولی سوجن کا باعث بنتا ہے، یہ سوجن بعد میں جِلد پر جھریوں کا باعث بنتی ہے۔
مگر اب یہ معلوم ہوچکا ہے کہ ایسا ممکنہ طور پر خون کی شریانیں سکڑنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
جب آپ ہاتھوں یا پیروں کو پانی میں ڈبوتے ہیں تو اعصابی نظام خون کی شریانوں کو سکڑنے کا پیغام بھیجتا ہے۔
اس پیغام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جسم ان حصوں کے لیے خون کی فراہمی کم کردیتا ہے جس سے شریانیں سکڑ جاتی ہیں، جِلد ان کے گرد مڑ جاتی ہے جس سے جھریاں بن جاتی ہیں۔
اب نئی تحقیق میں شامل امریکا کی Binghamton یونیورسٹی کے ماہرین نے بتایا کہ مختلف افعال جیسے سانس لینے، پلک جھپکنے، دل دھڑکنے یا سورج کی روشنی میں آنکھوں کی پتلیاں سکڑنے وغیرہ کے لیے ہمیں شعوری کنٹرول کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ خودکار اعصابی نظام کی بدولت ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایسا ہی پانی میں ہاتھ پیر کچھ دیر رکھنے سے جھریوں کی شکل میں ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شریانیں سکڑنے سے بننے والی جھریوں کے دوران جِلد کے پسینہ خارج کرنے والے مسام کھل جاتے ہیں اور پانی جِلد کے ٹشوز میں آسانی سے بہنے لگتا ہے اور جسم کے اندر نمکیات کی سطح گھٹ جاتی ہے۔
ان محققین سے ایک طالبعلم نے سوال کیا تھا کہ آخر جھریوں کا پیٹرن ہمیشہ ایک جیسا کیوں ہوتا ہے اور اسی کا جواب جاننے کے لیے نئی تحقیق پر کام کیا گیا۔
تحقیق میں شامل افراد کے ہاتھوں کو 30 منٹ تک پانی میں ڈبو کر رکھا گیا اور پھر ہاتھوں کی تصاویر لی گئیں، پھر یہی عمل 24 گھنٹے بعد دہرایا گیا، جس کے بعد پیٹرن کا موازنہ کیا گیا۔
تحقیق میں انکشاف ہوا کہ پانی میں ہاتھوں کے رہنے سے بننے والی جھریوں کا پیٹرن یکساں ہوتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ بار بار وہی پیٹرن سامنے آتا ہے۔
تحقیق کے مطابق اس کا ممکنہ جواب یہ ہے کہ ہاتھوں میں موجود خون کی شریانیں معمولی حرکت کرتی ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ درحقیقت جسم کی دیگر شریانوں کے مقابلے میں ہاتھوں کی شریانیں زیادہ ساکت ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہاتھ میں ڈبونے سے ہمیشہ ایک ہی انداز کی جھریاں بنتی ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل آف دی مکینیکل بی ہیوئیر آف بائیومیڈیکل میٹریلز میں شائع ہوئے۔