21 مارچ ، 2012
اسلام آباد… سپریم کورٹ کا سات رکنی بینچ جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت اور این آر او عمل درآمد کیس کی سماعت 13دن بعد دوبارہ شروع کر رہا ہے ۔ سوئس حکام کو خط لکھنے کے عدالتی فیصلے پر دوسال چار ماہ ماہ تک عمل درآمد نہ کرنے پر سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔ وزیر اعظم کو عدالت نے دو مرتبہ طلب بھی کیا ایک بار شوکاز نوٹس کی سماعت کے روز اور دوسری مرتبہ فرد جرم عائد کرنے کے لیے۔اس سے پہلے عدالت نے فرد جرم عائد نہ کرنے کے لیئے وزیر اعظم کی انٹرا کورٹ اپیل مسترد کر دی تھی۔ فرد جرم عائد ہونے کے بعد یوسف رضا گیلانی نے اپنے دفاع میں سیکریٹری کیبنٹ نرگس سیٹھی کو بطور گواہ پیش کیا جس پر اٹارنی جنرل نے جرح کی۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے خود عدالت میں پیش ہوکر بیان حلفی دینے کی بجائے تحریری بیان داخل کرنے کا فیصلہ کیا۔اب توہین عدالت کے مقدمہ میں حتمی دلائل کا آغاز ہونا تھا تاہم ملزم وزیر اعظم گیلانی نے سات رکنی بینچ پر اعتراضات کرتے ہوئے عدالت کو تجویز دی کہ سوئس حکام کو خط لکھنے کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوا دیا جائے ،جب تک آصف زرداری صدر ہیں سوئس حکام کو خط نہیں لکھا جاسکتا۔ وزیر اعظم نے سات رکنی بینچ پر اعتراض کیا ہے کہ 10جنوری کو 6 عدالتی آپشنز کا فیصلہ اور انہیں توہین عدالت کا شوکاز نوٹس دینے والے سات رکنی بنچ کے ججوں کو توہین عدالت کے مقدمے کے ٹرائل اور فیصلے سے خود کو باوقار طریقے سے الگ کر لینا چاہیئے۔ جواب کے پیرا گراف 61 میں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ خود کو سپریم کورٹ کے سامنے انتہائی احترام سے تو پیش کرتے ہیں لیکن سات رکنی بنچ کی اتھارٹی اور تشکیل کونہیں مانتے۔ وزیر اعظم کا یہ بھی موقف ہے کہ عدالت بغیر ایڈوائس سوئس حکام کو خط لکھنے کے حوالے سے اپنا 8مارچ کا فیصلہ بھی واپس لے کیوں کہ یہ ان کی عدم موجودگی میں دیا گیا اور وہ جواب داخل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔۔ وزیر اعظم نے پہلی مرتبہ وفاقی حکومت کی طرف سے بھی جواب داخل کیا ، جس میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں دو اصول وفاقی حکومت کے مدنظر ہیں۔ پہلا یہ کہ کرپشن کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جانا چاہئیے ، دوسرا اصول ریا ست اور اس کے سربراہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور صدر کے خلاف بیرون ملک مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا۔ وزیراعظم نے جواب میں یہ بھی کہاہے کہ ان کے کرداراورقسمت کا منطقی فیصلہ کرنیکے جج پاکستان کے عوام ہیں جیساکہ عدالت نے 10جنوری کو اپنے فیصلے کے چھٹے آپشن میں بھی کہا ہے اور وہ خودکو آئین کے تحت مناسب وقت پر عوام کے سامنے پیش کر دیں گے ۔ ان کا موقف ہے کہ انہوں نے بطوروزیراعظم اورذاتی حیثیت میں بھی کبھی عدالتی احکامات کی توہین نہیں کی۔توہین عدالت کیس میں اب حتمی دلائل کاآغازہوگا۔